انسان کا اللہ تعالی کے ساتھ اصل رشتہ عبد ومعبود کا ہے اور متقی اور پرہیزگار وہی ہے جس نے اس تعلق کو جان لیا اور مان لیاعبادت سے انحراف کرنے والا مغرور و متکبر ، ناشکرا بلکہ حاسد اور خائن ہوتا ہے عبادت انسان میں عاجزی ، انکساری ، اطاعت اور خشیت پیدا کرتی ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جا ننے اور پہچاننے اور خوشی وتندہی سے ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور تکمیل ایمان اور تعلق بااللہ کی ضمانت ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے جس کا ترجمہ ہے کہ’’اے لوگوں عبادت کرو پروردگار کی جس نے پیدا کیا تمھیں اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تا کہ تمھیں تقویٰ نصیب ہو‘‘
یاد رہے کہ عبادت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اسلام رہبانیت کا نام ہے اور انسان کسی غار میں چھپ کر بیٹھ جائے اور ساری عمر رکوع وسجود میں گزار دے یا لمبے لمبے وظائف کو اپنا وطیرہ بنا لیں چلاکشی کرے اور اصلاح واحوال کو بھول جائے اسلام انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی فلاح کا دین ہے ملت اسلامیہ زندہ و متحرک قوم بنانے کی اہمیت کو نظر انداز کرنا اللہ اور اسکے رسولؐ کے احکام سے غفلت وکج فہمی کی علامت ہے اللہ کے نزدیک سب سے افضل ترین کام انسانیت کی خدمت ہے اس لیے اللہ تعالی عدل واحسان اور عزیزواقارب کی خدمت کرنے کا حکم دیتا ہےبے حیائی ، منکرات اور ظلم کرنے سے منع کرتا ہے اس لیے واجب ہے کہ علدواحسان کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں بسنے والے تمام انسان امن و سلامتی کی زندگی گزاریں جو توحید اورآخرات پر یقین رکھتے ہوں
عبادت الہی انسان کا اللہ تعالی پر نہیں بلکہ اللہ کا اس اس بندے پر احسان ہے جسے وہ اپنی بندگی کے لیے چن لے اللہ تعالی واحدالقہار ہے ہر شے سے بے نیاز ہے عبادت کی ضرورت انسان کو ہے یہ تقوای اور طہارت کے ذریعے انسان کو اللہ کا قرب بخشتی ہے
عبادت گزار اور متقی لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے بہت سے وعیدین سنائی گئی ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو جس سے محبت کرے گا وہ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا یوں اللہ اور اسکے رسولؐ اوراولیاء کرام سے محبت کرنے والے خسارے مین نہ ہونگے ذکر و اذکار تو دلوں کا تقوی اور کردار سازی کی بنیاد ہے۔