سر جلائیں گے روشنی ہو گی

Posted on at


سر جلائیں گے روشنی ہو گی
سر جلائیں گے روشنی ہوگی
اس اجالے میں فیصلے ہوں گے
روشنائی بھی خون کی ہو گی
اور وہ فاقہ کش قلم جس میں جتنی چیخوں کی داستانیں ہیں, ان کو لکھنے کی آرزو ہو گی
نہ ہی لمحہ قرار کا ہو گا، نہ ہی رستہ فرار کا ہو گا
وہ عدالت غریب کی ہو گی جان اٹکی یزید کی ہو گی
اور پھر اک فقیرکا بچہ مسندوں پر بٹھایا جائے گا
اور ترازو کےدونوں پلڑوں میں سرخ لمحوں کو تولا جائے گا
سابقہ حاکمین حاضر ھوں، نام اور ولد بولا جائے گا
جو یتیموں کی طرف اٹھے تھے ایسے ھاتھوں کو توڑ ڈالیں گے
اور جس نے روندی غریب کی عصمت اس کی گردن مروڑ ڈالیں گے
جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے
جو دوکانیں سجائے بیٹھے ہیں
سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچا عذاب بیچا ہے
مفلسوں کو سراب بیچا ہے
دین کو بے حساب بیچا ہے
کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے
اور کیا کہوں قوم نے خود کو کس طرح باربار بیچا ہے
میں بھی پاکستانی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
اک مہک میرے چار سو بھی ہے
جونپڑی کے نصیب بدلیں گے پھر انقلاب آئےگا
بیٹھ رہنے سے کچھ نہیں ہو گا ایک دن انقلاب آئے گا.



160