عورت وقار کی علامت

Posted on at


عورت وقار کی علامت

مختلف شعبہ زند گی سے تعلق رکھنے والے افراد سماجی فلاح و بہبود معاشرتی نظم و ضبط، سیاست، معاشی استحکام اور دیگر شعبوں میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ کیوں نہیں روئے زمین پر نوع انسانی کی بقا کا سفر تنہا کسی ایک صنف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے لہذا خواتین کی اہمیت سے انکار کا تو کوئی جواز ہی نہیں عورت ہر روپ اور ہر رشتہ میں عزت، وقار کی علامت، وفاداری اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔ انسان کسی بھی منصب اور حیثیت کا حامل ہو زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی مرحلہ پر کسی خاتون کا مرہون احسان ضرور ہوتا ہے بارہا سننے میں آتا ہے کہ ہر کامیاب انسان کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صنف نازک کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں ایک نا قابل تسخیر طاقت ضرور موجود ہے تو پھر اس کی ذات میں کم مائیگی کے احساس نے کب اور کیسے جنم لیا؟ اس سلسلہ میں مورد الزام مردوں کو ٹھرایا جائے یا پھر عورت ہی عورت کی حریف واقع ہوئی ہے؟ یہ وہ معمہ ہے جسے حل کرنے اہل علم و دانش برس ہا برس سے سرگرداں ہیں۔ دیکھئے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہماری تو بس ایک چھوٹی سے عرض ہہ کہ خود کو پہچانیں بنتِ حوا کا وہ چہرہ جس کے نقوش وقتی تقاضوں، مفروضوں اور دیگر نام نہاد جدت طرازیوں سے گرد آلود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اُن کو شناخت کریں، ترقی کا سفر روایات اور جدت کے توازن کے بغیر ممکن نہیں۔ مانا کہ جدت اور نیا پن خود میں ایک بے ساختہ تازگی کا احساس لئے ہوتا ہے جیسے بہاروں میں پھولوں کا کھلنا مسرت اور شادمانی کا باعث ہوا کرتا ہے۔ لیکن اگر اس کا رشتہ ازلی تاریخی حقائق سے منقطع کردیا جائے یا کمزور پڑ جائے تو پھر یہ تازگی موسمی پھلوں کی طرح جلد اپنا نام و نمود کھو کر قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔

عورت کا اصل وصف حیا اور نسوانیت اس کاحقیقی حسن ہے پھر یہی خوبیاں نمو پاکر خلوص، ہمدردی، ایثار اور مستقل مزاجی جیسے باوقار جذبوں کی شکل میں عیاں ہوتی ہیں۔ یہی وہ خوبصورتی ہے جس کی ضیا مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن اور صبح نو کی نوید ہے۔ آنکھوں میں جھلملاتے روپیلی اجالے ، آسمان پر قوس و قزح کی بہار، مہندی، گلاب اور چنبیلی کی مہک اور اس جیسے نجانے کتنے استعارے عورت کی ذات سے منسوب ہیں۔ دھرتی کے ٹھراؤ سے لے کر سمندروں اور دریاؤں کے طلاطم جیسے متضاد جذبات کو سینے میں سموئے یہ ہستی ماضی، حال، مستقبل کے پر پیچ اور طویل رستوں پرمستعد قدموں سے رواں دواں ہے اور نسل انسانی کی نہ صرف پرورش اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیئے ہیں ہمہ تن مصروف ہے بلکہ وقت پڑنے پر اپنے فطری کردار کے دائرہ کار سے باہر بھی ہر سمت میں ہر محاذ پر اپنی فتح کا علم بلند کرنےکے حوصلے سے مالا مال ہے۔

خود خواتین کا احترام دراصل نوح انسانی کے احترام کے مترادف ہے، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت بی بی حوأ کے علاوہ دنیا میں کوئی نفس ایسا نہیں آیا جسے ماں نے جنم نہ دیا ہو۔ اگر ہمارے لئے ماں محترم ہے تو دنیا کی ہر خاتون محترم ہونی چاہئے یوں بھی عورت کا احتصال اور اسے کمزور و حقیر سمجھنا عہد جاہلیت کے شرمناک رواجوں میں سے ایک ہے۔ اسلام نے جدید ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جہاں حقوق کو غصب کرنا ، ظلم و جبر تکبر ، طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا وہیں بیٹیوں کی ولادت کو باعثِ شرم سمجھنا اور اس جیسے دیگر اطور کی حوصلہ شکنی بھی کی، انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا۔ عورت کو ایسا با عزت مقام عطا کیا جو کہ رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ نیز خواتین کو بھی انتہائی باوقار طرز حیات تعلیم کیا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ خواتین کو اپنا تشخص قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے پہلا قدم خود ہی اٹھانا ہے۔ معاشرہ مرد کا ہی سہی، کیا کبھی بھی یہ ثابت کیا جا سکا کہ اس مرد کے معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری میں کبھی عورت کا کوئی عمل دخل نہیں رہا؟ نہیں ایسا ممکن ہی نہیں، در حقیقت ابتدائے آفرنیش سے آج تک یہ اپنی شخصیت کے بھر پور احساس کے ساتھ ایکسسٹ کر رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ مراحل پر اسے اپنی اہمیت کا احساس نہ رہا ہو۔

صنف نازک کہلانے والی یہ مخلوق اپنے آہنی ارادوں اور انقلابی عزم و ہمت کا پیکر ہونے کے باوجود وسیع القلبی، شفقت و مہربانی اور درگزر جیسی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ اور یہ خواص کسی خاص خطہ، اراضی یا کسی خاص قوم کی خواتین کی ملکیت نہیں بلکہ ہر خاتون کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں۔ لیکن ان سے بھر پور استفادہ اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے جب عورت کو اسکے بنیادی حقوق بہم پنچائے جائیں۔ جن میں پہلا حق تعظیم و اکرام ہے جن اقوام نے اپنی خواتین کو معزز جانا ان کا احترام کیا۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی ان کے نام افق کی بلندیوں تک پہنچے۔ 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160