غریب شہر ترستا ہے نوالے کو

Posted on at


حضرت عمر فاروق(رضی الله عنہ) خلیفہ المسلمین ٢٢ کروڑ مربع میل کے حاکم تھے اور فرمایا کرتے تھے اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو مجھ سے اس کا سوال ہو گا. لہٰذا آٹے کی بوریاں کندھوں پر اٹھا اٹھا کر بیواؤں اور یتیموں کے دروازوں تک پہنچاتے تھے. یوم حساب کا خوف اتنا تھا کہ کبھی بیت المال پر بوجھ نہیں ڈالا.ایک دفعہ آپ کے دور میں قحط سالی آ گئ. بھوک اور فاقہ نے ڈیرے  ڈال لئے حضرت عمر(رضی الله عنہ) راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے اور الله سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور یہ فرماتے میرے اعمال کی کوتاہی کے سبب عوام پر سختی آئی ہے. انہیں دنوں آپ کے سامنے دسترخوان پر کھانا رکھا گیا جس میں زیتون اور سرکہ سالن  کی جگہ  موجود تھا. آپ نے فرمایا ایک وقت میں دو سالن دسترخوان پر جمع نہ کئے جایئں. جب تک قحط ختم نہیں ہو گیا امیر المومینین نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا



آج پیارا پاکستان نۓ نۓ بحرانوں کی زد میں ہے. کبھی قیامت خیز زلزلے اور کبھی تباہ کن سیلاب بستیوں اور شہروں کو ملیامیٹ کر رہے ہیں. لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی. انھوں نے کبھی بھول کر بھی نہیں سوچا کہ کشور حسین شاد باد بلاؤں کی زد میں کیوں آ گیا ہے؟ ہمارے اعمال کی سیاہی نے اسکی خوشیوں کو سوگوار کر دیا ہے. اسکی چمکتی صبحیں دھندلا گئی ہیں. وہ ایوان جہاں قانون کے نفاذ کے لئے اسلام کے نمائندے لاالہ الاالله کا اقرار کرتے ہیں اس کے مقدس ایوان میں شراب اور زنا کے دور چلتے ہیں. مجرے ہوتے ہیں اور اٹھارہ کروڑ مسلمانوں سے خدمت اور اسلام کی پاسبانی کا حلف اٹھا کر اقتدار میں آنے والے کس طرح اسلام پرستوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں. دھوکا دہی اور فریب کاری کر کے معصوم ووٹروں کی سادگی کا مذاق اڑاتے ہیں.


پاکستان کو غربت، جہالت،بدکاری اور فحاشی کے پاتال میں بدلنے والوں نے تو ظلم کی آخیر کر دی ہے کے مزار قائد ملت کے اندر فحاشی کا اڈا چلا کر جسم فروشی کا کاروبار چلا رکھا ہے. صورت حال قران کے اس سوال پر آ پہنچی ہے ( الیس منکم رجل رشید)


جب لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اپنے گھر کا محاصرہ کرتے ہویے پایا اور اپنے مہمانوں کے خلاف ان کے ناپاک عزائم دیکھے تو پوچھا کیا تم میں کوئی شریف آدمی نہیں ہے؟ لگتا ہے آج کوئی نہیں رہا جو اس ملک کو ظلمتوں کے اس بھنور سے نکالے سواۓ ذات باری تعالی کی نصرت و تائید کے. اس کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے. ان ہاتھوں کو دعا کرنے کی ضرورت ہے جنھیں رب کریم نا مراد نہیں لوٹاتا جن کی دعائیں  مستجاب آتی ہیں. افسوس کے پورا ملک لوٹ مار قتل و غارت پولیس گردی اور بدامنی کا شکار ہے. کسی کی بھی جان و مال عزت محفوظ نہیں.


لیکن حکمرانوں کی بےحسی اور غفلت کی انتہا اس وقت سامنے آئی جب صوبہ سندھ کے علاقہ تھر پارکر میں سینکڑوں بچے بھوک اور پیاس سے بلک بلک ماؤں کی آغوش میں دم توڑ گئے



               


 بےبس و مجبور مائیں ان کے چہروں کو اپنے آنسوؤں سے تر کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکیں. پانی کیا ایک بوند بھی مہیا نہ کر سکیں. افسوس یہ توانا پاکستان اور پڑھا لکھا پاکستان تعمیر کرنے والے ماؤں اور بچوں کے عالمی دن پر دنیا کو روشن خیال ترقی یافتہ پاکستان دکھانے والے میلے تماشوں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرتے رہے اور اپنی ناک کے نیچے موت کے بے رحمانہ  شکنجوں میں جکڑے ہوۓ ان بھوکے پیاسے بچوں کو نہ دیکھ سکے جن کے زرد چہرے اور گوشت سے خالی ڈھانچے پوچ رہے ہیں کہ ہمارا قاتل کون ہے؟


ہمارے حکمران جن کے گھوڑوں اور کتوں جن کے لئے لاکھوں کی قیمتی اور اعلی خوراک مہیا کی جاتی ہے اور نوکروں چاکروں کی ایک فوج انکی دیکھ بھال پر مامور ہے. اس طرح اس شوق پر لاکھوں کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں لیکن ان کے اس پاس بھوک سے مرتے ہوۓ غریب بےبس فاقہ کشوں کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے. ظلم کی انتہا اور کمال ہے. آخر الله کے ہاں جواب دہی کا خوف دلوں سے کیوں نکل گیا ہے؟


نہ صرف حکمران بلکہ شیطان کی عبادت میں مدہوش قوم بھی آنکھیں کھول کر دیکھے اور نصیحت پکڑے کہ تھر میں پھیلی ہوئی یہ بھوک ہمارے گلی کوچوں تک نہ آ جائے کیونکہ ایک طرف لاکھوں روپے شادی بیاہ اور رسم و رواج کے نام پر خرافات اور بےہودہ کاموں پر خرچ کیا جا رہا ہو اور دوسری طرف انسانیت چند گھونٹ پانی اور چند نوالوں کے لئے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہی ہو. تو سنئے الله تعالیٰ کے غضب کو کوئی شے نہیں روک سکتی. صرف توبہ النصوح اور مستحقین کے لئے صدقہ خیرات ھی ہمیں زمینی اور آسمانی آفتوں سے بچا سکتا ہے.


ہم مانیں یا نہ مانیں ان کے قاتل ہم سب ہیں ہم جنہوں نے ان حکمرانوں کو اپنے ووٹوں کے ذریعہ منتخب کیا اور وہ آج امریکہ اور یورپ کے دوروں پر کئ کئ کروڑوں روپے خرچ کر کے لگثری ہوٹلوں میں قیام کر کے اور عیش و عشرت کر کے لوٹ آتے ہیں. نا ان کے دوروں سے غریبوں کے مسئلے حل ہوتے ہیں، نا مہنگائی کم ہوتی ہے. نہ دہشت گردی کنٹرول ہوتی ہے بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی. بےحسی و بے دردی کا عالم یہ ہے کہ سندھ کے وزیر نے مجرمانہ غفلت کا اعتراف بھی کیا اور مٹھی کے فقہ کشوں کی غم گساری کے لئے گئے اور وہیں شاندار بوفے ڈنر اڑایا جس میں تکے کباب اور کوفتے انڈے کی ڈشیں تیار کی گئیں تھیں.    


فرانس کی تاریخ کا ایک مشہور واقعه ہے کہ ایک دفعہ فرانس کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا لوگ سسک سسک کر مر رہے تھے. جب یہ خبریں بادشاہ فرانس کے محل میں پہنچیں تو ملکہ میری(merry) نے اپنے وزیر کو بلوا کر پوچھا یہ کیا خبریں آ رہی ہیں؟ تو اس نے کہا لوگوں کے پاس بھوک و افلاس کی وجہ سے کھانے کو کچھ نہیں. "بریڈ بھی نہیں ہے" تو محلوں کی باسی ملکہ نے شان بےنیازی سے کہا " تو یہ لوگ کیک کھا لیا کریں"                     


 


آج یہی حالات قوم اور حکمرانوں کے ہیں یہ فاصلے اور کڈوریں بڑھتی ھی چلی جا رہی ہیں. غریبوں کا لہو ٹیکسوں، بلوں اور ہوشربا مہنگائی کے ساتھ نچوڑا جا رہا ہے. اور سہولیات سے مزین علاقوں میں بھی موت کا شکنجہ تیزی سے حرکت کر رہا ہے. جبکہ تھر کے صحرا میں جان لیوا پیاس اور بھوک کا عفریت ہاتھ دکھا رہا ہے. ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دور حکومت کے پانچ سالہ دور میں ملکی خزانے سے ہزاروں ارب روپے لوٹے گئے. اور صرف حکمران خاندان کے اثاثے ٧٠ ارب روپے کی سطح سے تجاوز کر گئے. دو سابقہ وزراۓ اعظم کے خاندانوں نے تین ہزار ارب روپے کی کرپشن  کر کے خزانے کو دھچکا لگایا. جبکہ  حکومتی کابینہ میں شامل ڈکیت عورتوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوۓ اور سینکڑوں ارب روپے لوٹ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا. پیپلز پارٹی کی کئ خاتون وزراء اربوں کی جائیدادیں بنا کر بیرون ملک فرار ہو چکی ہیں. چھ سال تک بلا شرکت غیر پورے پاکستان میں حکمرانی کے نتیجہ میں انھوں نے ملک کے ساتھ کیا کیا ہے؟


         


 


کراچی سے گھوٹکی اور راجستان سے تھر تک سڑکوں کے نام صرف نقشوں اور کاغذات تک محدود رہے اور فنڈ وصول کر کے ہڑپ کئے جا چکے ہیں. آج سندھ کے ارباب اقتدار کہہ رہے ہیں کہ وفاق نے انہیں گندم دی تھی جو ٹرکوں کا کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک نہ پہنچائی جا سکی. افسوس کا لفظ بہت چھوٹا ہے اور بڑا کہنے کی دین اجازت نہیں دیتا. ایک ایک ایم پی اے اتنی کرپشن کر رہا ہے کہ وہ اپنی جیب سے اس چھوٹے سے علاقہ میں گندم سبزیاں اور دودھ جیسے ضروری لوازمات فراہم کر سکتا تھا. لیکن حرام خوری انسان کو آدم خوری بنا دیتی ہے. اور ایک وقت آتا ہے کہ پھر انسانیت اپنی موت آپ مر جاتی ہے. تڑپتے بلکتے سسکتے انسان دیکھ کر درندہ سیفٹی کے جذبوں کو تسکین ملتی ہے اور یہی درندہ صفتی ہے جو آج پیارے وطن کی سرزمین پر بسنے والے نجانے کتنے انسانوں کے اندر سرایت کر چکی ہے.


آج بے گناہوں کو فاقوں کی موت کہیں بے علاجی کے غم، باررود کی برسات اور ایسی ھی بے رحمانہ  نوعیت  کی موت سے مارا جا رہا ہے. پورا ملک حسرت ویاس کے مناظر میں ڈوبا ہوا ہے.  زندگی بے توقیر ہو کر رحم کی بھیک مانگ رہی ہے. لیکن غرور و تکبر کے کچھ پتلے خدائی کا دعوی‍ کر رہے ہیں.اور انسانیت کی اس تحقیر پر شرمندہ ہونے کی بجاۓ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ایسے میں تحسین کے قابل ہیں جناب وزیر پاکستان نواز شریف کے جذبات اور اقدامات جو انھوں نے فوری طور پر کئے ہیں لیکن یہ فوری اقدامات وقتی نہیں ہونے چاہییں. تھر کے صحرا میں برس ہا برس سے ایسے المیے جنم لے رہے ہیں. بارش کے جمع کردہ پانی سے بناۓ ہوۓ ٹوبے اور جوہڑ جن سے انسان اور مویشی دونوں پانی پیتے ہیں اور دیگر ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں تیز دھوپ اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ جاتے ہیں. اور زندگی موت کی دہلیز پر آ بیٹھتی ہے.


               


کئی سال سے بہت سی جماعتیں جیسے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن وغیرہ نے ان علاقوں میں کنویں بنا کر اور ہینڈ پمپ لگا کر پانی کی آسان فراہمی کا کام شروع کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے کافی بہتر صورت حال ہے.   


عوام اور حکومت دونوں کو اس کارر خیر میں بھرپور حصہ ڈال کر معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو موت کے منہ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے. ارشاد ربانی ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160