پاکستان کی موجودہ صورتحال اور حکومت کی بوکھلاہٹ - کڑواسچ

Posted on at


پاکستان پی ایم ایل این کے حکمرانوں نے ہمیشہ جلد بازی میں فیصلے کئے اور کسی کے مشوروں پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے انھیں تین مرتبہ اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے اور پی ایم ایل کے قائد میاں محمد نواز شریف کو جلاوطنی کا منہ بھی دیکھنا پڑا لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ جلد بازی کی غلطی پر کاربند ہیں ان کی ماضی میں کی گئی جلد بازیوں کا ذکر کرنا فضول ہے کیونکہ ماضی میں انھوں نے جو غلطیاں کیں ان کا خمیازہ انہوں نے بھگت لیا ہے تذکرہ صرف موجودہ حکومت میں کی جانے والی چند جلد بازیوں کے متعلق ہے



حال ہی میں کنیڈین شہریت کے حامل علامہ طاہرالقادری نے پاکستان آنے اور لانگ مارچ اور ٹرین مارچ کا عندیہ دیا تو موجودہ حکمران ان کے آنے سے قبل ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گے اور اسی بوکھلاہٹ میں وفاقی وزارء نے فلمی ڈائیلاگ مارنا شروع کر دئیے کہ ہم قادری کو قدم نہیں رکھنے دیں گے اور انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے وغیرہ وغیرہ- وزرا کے ان ڈائیلاگوں سے حکومت وقت کی نہ صرف بوکھلاہٹ دیکھائی دے رہی تھی بلکہ اس میں حکمرانوں کی بزدلی کار فرما تھی- علامہ طاہرالقادری کی آمد سے قبل ہی اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء سید خورشید شاہ نے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کو بھانپتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں حکومت وقت کو انتہائی مفید اور مفت مشورے دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علامہ طاہرالقادری پاکستان آ کر لانگ مارچ کرتے یا ٹرین مارچ انہیں کھل کر کرنے دیں اور انہیں سکیورٹی فراہم کریں طاہر القادری اور ان کے ہمنواء جوشیلی تقریریں کر کے واپس چلے جائیں گے- ان کے لانگ مارچ اور ٹرین مارچ سے حکومت کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا اورنہ ہی حکومت کی بدنامی کا سبب بنے گا لیکن موجودہ حکمرانوں نے اپوزیشن لیڈر کے مفید اور دوراندیش مشوروں کو کسی خاطر میں نہ لایا اور حسب روایت اپنی بوکھلاہٹ کی غلطی کو دھراتے ہوئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قادری کے آنے سے قبل کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور عوام میں حکومت کیے خلاف نفرت اور غم و غصہ پایا گیا



اس کے باوجود حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور قادری کی آمد پر انہیں اترنے نہ دیا اور یہ ڈرامہ پوری دنیا نے دیکھا حکمرانوں کی بوکھلاہٹ اور ہڑبڑاہٹ کی وجہ سے ایک غیر معروف شخص کو اتنی مقبولیت ملی جس کے وہ قابل نہ تھے کیونکہ پاکستان کی سنجیدہ اور محب وطن عوام طاہرالقادری کو اچھی طرح جانتی اور پہچانتی ہے جن کا کوئی خاص اور وسعئی حلقہ احباب بھی نہیں ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ طاہرالقادری کنیڈین شہریت کے حامل ہیں اور ان کا ایجنڈا غیر ملکی ہے جس کا مقصد وطن عزیز کو صفہ ہستی سے مٹانا ہے اس لئے وہ بار بار کنیڈا سے پاکستان پر اٹیک کر نا چاہتے ہیں- پچھلی دفعہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں انہیں نہ تو روکا اور نہ ہی ٹوکا بلکہ ان کو دھرنے کی کھلی چھٹی دے دی تھی- پاکستانی عوام نے دیکھا کہ اس دھرنے میں قادری صاحب خود تو ایک کنٹینر میں آرام سے تشریف فرما تھے- جس میں ہر قسم کی سہولیات میسر تھیں لیکن شرکائے دھرنا کو کڑاکے کی سردی میں فٹ پاتھوں پر چھوڑ رکھا تھا جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی تھے کئی معصوم بچے سردی کی وجہ سے ٹھٹھر کر مر گئے لیکن قادری صاحب اپنے مذحوم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور ایک معاہدے کے تحت دھر نا ختم کرنے پر مجبور ہوئے وہ معاہدہ بھی ان کے کام نہ آ سکا بالآخر انہیں ناکام و نامراد کینڈا واپس جانا پڑا ان کی اس ناکامی کا کریڈٹ بلا شبعہ اس وقت کے حکمرانوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی حکمت عملی اور دور اندیشی سے غیر ملکی ایجنڈے کو شکست دی



موجودہ حکمرانوں کی نیت پر ہر گز شک نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی پالیسیوں اور فیصلوں سے ضرور اختلاف ہے کیونکہ پی ایم ایل این کے پالیسی میکروں میں برداشت و صبر و تحمل اور دور اندیشی کا فقدان ہے- یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر فیصلے جذباتی ہوتے ہیں جن کے نتائج درست نہیں ہوتے جس کی وجہ سے پارٹی کا گراف گر جاتا ہے اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ن لیگ کے قائدین میں حکومت چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے- حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دوسری جماعتوں کی بجائے عوام میں ن لیگ زیادہ مقبول ہے لیکن پارٹی قائدین کو اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے موجودہ حکمرانوں کیلئے ایک اور فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے جس میں اگر اپنی روایتی بوکھلاہٹ والی غلطی ایک بار بھر دھرائی تو پھر حکومت کا مزید سنبھلنا مشکل ہو جائے گا- وہ آزمائش کی گھڑی ہے 14اگست 2014 جس میں تحریک انصاف کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے- حالانکہ مذکورہ لانگ مارچ کا کوئی مقصد نہیں ہے اورنہ ہی اس سے پاکستانی عوام کو کوئی فائدے کی توقع کرنی چاہیئے وطن عزیز اس وقت انتہائی خطرناک صورتحال میں ہے- اندرونی اور بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں- یہ وقت ہے اتحاد و اتفاق کا ملک کی بقاء و سالمیت کے لیے تمام جماعتوں کو یکجا ہونیکی ضرورت ہے- ایسے نازک موقع پر لانگ مارچ اور ٹرین مارچ اور دھرنے ملک و قوم کے ساتھ دشمنی اور بغاوت کے مترادف ہے اس کے باوجود بھی حکمرانوں کو انہیں روکنے ٹوکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی انکی منت سماجت کرنی چاہیے اگر پی ٹی آئی کے قائد لانگ مارچ پر بضد ہیں تو شوق سے لانگ سے لانگ مارچ کریں اور نہ ہی ان کی منت سماجت کرنی چاہیے اور اگر حکمرانوں نے اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت دیا تو پی ٹی آئی اپنے مقصد میں کامیاب رئیے گی پاکستانی عوام کو بھی 14اگست کے لانگ مارچ میں شریک ہونے سے قبل انتہائی سنجیدگی اور دور اندیشی سے سوچنا ہوگا کیونکہ جذباتی فیصلوں سے اکثر غلطیاں سرذد ہو جاتی ہیں جو بعد میں پچھتاوے کا سبب بنتی ہیں کہیں بعد میں یہ نہ کہنا پڑے "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت




About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160