انسانی تہذیب کا گہوارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام

Posted on at


انسانی تہذیب کا گہوارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام

کسی مغربی مورخ سے کسی ایسے خطے کے بارے میں پوچھا جائے جسے قدیم تر انسانی تہذیب کا گہوارہ ہونے کا اعزاز حاصل ہو تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک ملک کا نام لے دے گا اور جب کسی مسلمان تاریخ دان سے نبیوں اور ولیوں کی سرزمین کا پتہ پوچھا جائے تو وہ بھی اسی ملک کا نام بتائے گا اور وہ ملک ہے شام۔ جسے عربی میں سوریہ یا الشام بھی کہا جاتا ہے۔

بحیرہ روم کے کنارے اسرائیل عراق اور ترکی کے درمیان واقع یہ ملک اپنی آب و ہوا اور محل وقوع کی وجہ سے تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرق و مغرب میں رابطے کا ذریعہ اور آبادی کا محرک رہا ہے۔ دنیا کا یہ قدیم ترین ملک اکثر انبیاء و رسل اور بزرگان دین اور یہود و نصاری کی جائے پیدائش وہ وفات بھی ہے۔ شاید اسی لئے دنیا کے ہر خطے سے سیاح یہاں آکر اپنے آباؤ اجداد کی تہذیب کے آثار کو دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس ملک میں پائے جانے والے پانچ اہم آثار قدیمہ اقوام متحدہ کے عالمی تہذیبی ورثہ میں شامل کئے گئے ہیں۔

عجائبات سے مزین اس ملک کی تقریبا ۷۰ فیصد آبادی سنی مسلم اور سولہ فیصد لوگ شیعہ ہیں اس کے علاوہ دس فیصد لوگ عیسائیت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھتےہیں۔ عربی یہاں کی سرکاری زبان ہے۔ لیکن کرد، ترکی اور فرانسیسی بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ انگریزی جاننے والوں کی تعداد یہاں پر خاصی کم ہے۔

شام کے قابل سیا حت مقامات کی فہرست بنائی جائے تو وہ بہت طویل ہوجاتی ہے اور ۱۲۵ کے قریب سیاحتی مقامات تو صرف دمشق اور اس کے گردوںواح میں ہی پائے جائے ہیں لیکن اسلامی اہمیت کے مقامات دمشق کے علاوہ طب، حمص، حماہ میں پائے جاتے ہیں۔ شام کی دو بڑی بندرگاہیں بھی انہی شہروں میں بنائی گئی ہیں۔

دمشق صدی عیسوی میں آباد کئے جانے والے اس شہر کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ تاریخ کے اولین ادوار سے ہی یہ شہر اپنی صنعت و حرفت شیشہ کری اور ادب و فن کے لئے مشہور ہے۔ آج بھی پرانے دمشق کی ایک مارکیٹ قدیم طریقوں سے شیشے کی خوبصورت مصنوعات سیاحوں کے سامنے بنا کر فروخت کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ مسلمانوں نے دمشق کو حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور حکومت میں فتح کیا۔ قدیم دمشق کے گرد ایک دیوار تھی جس میں داخلے کے سات دروزے تھے۔ یہ سات دروازے باب فراج، باب مشرقی، باب فردوس، باب سلام باب توما اور باب صغیر میں جن کے نشانات ابھی بھی موجود ہیں۔ پرانے لاہور کی طرح پرانا دمشق ابھی بی انہی دروازوں کے اندر آباد ہے۔

اس شہر کے وسط میں دمشق کا سب سے اہم سیاحتی مرکز مسجد امیہ واقع ہے جوکہ اموی حکمرانوں کی جیتی جاگتی نشانی ہے مسجد کے درودیوار ایک قلعہ سے مشابہ ہیں۔ اسی مسجد میں حضرت ییحیٰ کا مزار واقع ہے مسجد کے ایک طرف بنے ہوئے حجروں میں امام غزالی کا حجرہ بھی ہے جہاں وہ درس تدریس فرماتے تھے۔ مسجد امیہ ہی وہ مسجد ہے جس کے ایک مینار پر حضور نے ﷺ حضرت عیسیٰؑ لئ نزول کی بشارت اور خبر دی ہے۔ مسجد کے قریب ایک گلی میں فاتح یورپ سلطان صلاح الدین ایوبی کا مزار واقع ہے اور اسی کے گردونواح میں واقع ایک قبرستان میں کاتب وحی حضرت امیر معاویہ ؓ کی قبر بھی موجود ہے۔

جامع مسجد امیہ سے باہر نکلتے ہی دمشق کا پرانا اور قدیم چھتا بازار، ،،سوق الحمیدیہ،،  موجود ہے اس بازار میں آپ کو عبایا میں پوری طرح ملفوف خواتین کے ساتھ ساتھ جینز اور سکرٹ میں ملبوس نوجوان بچیاں بھی نظر آئیں گی۔ پوری دنیا کی طرح شام بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ روایتی ملبوسات اور کھانوں کی جگہ مغربی طرز زندگی اور کھانوں نے لینی شروع کردی ہے لیکن زیادہ لوگ ابھی بھی اپنی روایات اور ثقافت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ سیاحوں کی دلچسپی کا سامان ہاتھ کی کڑھائی سے بنے خوبصورت میز پوش اور شیشے کی روایتی آرائشی اشیاء کی دکانوں میں ہے۔

زینبیہ عرف عام میں اس علاقے کا نام ہے جہاں حضور ﷺ کی نواسی سیدہ زینب بنت علیؓ کا مزار واقع ہے۔ خوبصورت منقش روضہ اور اس سے ملحق مسجد ہر وقت زائرین سے بھری ہوئی ہوتی ہے جن میں اکثریت ایران سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی اور پاکستانی زائرین بھی ہوتے ہیں جو اس بہادر خاتون کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے دور دراز کا سفر اختیار کرتے ہیں۔

مالولہ شام کا سب سے پرانا گاؤں ہے۔ جب رومیوں نے شام کو فتح کیا تو عیسائی عقیدے کے لوگ ان کے خوف سے دمشق کے قریب پہاڑی غاروں میں چھپ گئے تھے اور دو ہزار سال گزرنے کے باوجود یہ قبیلہ انہی پہاڑوں میں آباد ہے اپنے مخصوص لباس اور زبان کی وجہ سے یہ لوگ سیاحوں کے لئے بڑی دلچسپی کا سامان ہیں۔

مختلف زبان اور روایات کے باوجود یہ ملک اپنا اپنا سا لگتا ہے شاید اس کی وجہ ہماری اسلامی اقدار کا مشترک ہونا ہے۔ پانچ وقت اذانوں کی گونج اور رمضان کے مہینے کی رونق اور جوش و خروش بہت مانوس سے ماحول کا تاثر دیتا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار اور سادہ ہیں۔  



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160