وزن زیادہ ہونے کا مطلب یہ کہ دل کو پورے جسم میں خون کی فراہمی اور گردش جاری رکھنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور اس پر دباؤ زیادہ ہو گا اس وجہ سے دل کی بیماریوں اور فالج کے ہلکے حملے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جو لوگ بچپن سے ہی وزن کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں دوسروں کے مقابلے میں ان کا 65 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دک کی تکلیف میں مبتلا ہونے کا امکان پانچ گناہ زیادہ ہو جاتا ہے وزن کی زیادتی سے کچھ دوسرے پچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں جن کے نتیجے میں فالجی سی کفیت کا شکار ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ صحتمندانہ وزن والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ وزن کے لوگوں کو ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہونے کے امکانات دو سے چھ گناہ زیادہ ہوتے ہیں ان کے بلڈ کو لیسٹرول بھی زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے روزانہ ہونے والا یہ اضافہ بظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے لیکن چونکہ وقت گزرنے پتہ نہیں چلتا اس لئے کبھی گویا اچانک ہی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ نہایت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اگر انسان پر موٹاپا غالب ہو یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہیں کہ اس کے جسم میں فاضل چربی موجود ہو تو خون میں کولیسٹرول بڑھنا لازمی ہے اور اس کا مطلب دل کی بیماری میں مبتلا 80 فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ۔
اعصابی تناؤ اور ذہنی دباؤ جن کی وجہ سے عام طور پر پریشانیاں ، تفکرات اور غصہ ہوتا ہے دل کی بیماریوں کا ایک اور سبب ہیں لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی کوئی تعریف یا پیمانہ مقرر کرنا مشکل سائنسی یا طبی اصلاح میں دباؤ کی تعریف ہم یوں کر سکتے ہیں کہ وہ چیز جو ورزش کے زمرے میں نہ آتی ہو لیکن وہ دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتی ہو اور خون میں کیٹیکولامین نامی مادے کی مقدار بڑھادیتی ہو اسے دباؤ کہا جاتا ہے اور دباؤ کی حلاکت خیزی کے بارے میں عموما صحیح اندازے نہیں لگائے جاتے اور اسے معمولی چیز سمجھا جاتا ہے اکثر تو اسے نظر اندازہی کر دیا جاتا ہے یعنی نقصان دہ عوامل میں شمار ہی نہیں کیا جاتا اگر انسان دباؤ اور اعصابی تناؤ سے بچنے کی تدبیریں کرتا رہے تو اسے دل کی بیماریاں اور پیچدگیاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
مختصر یہی کہا جا سکتا ہے آج کے انسان کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں دل کی بیماریوں کو بھی ایک سنگین خطرہ شمار کرنا چائیے ان سے بچاؤ اور نبرد آزما ہونے کے سلسلے میں صرف انفرادی کوششیں کرنا ہوں گی اجتمائی سطح پر کوششوں کے لئے پالیسی میکرز، طب اور صحت سے متعلق پیشہ وراداروں ،این جی اوز ، محققین ، ماہرین تعلیم ، سماجی کار کنوں اور حکومتی اداروں کے درمیان رابطہ ، باہمی تعاون ،مربوط اقدامات اور مشترکہ حکمت عملی ضروری ہے اگر یہ ممکن ہو سکے تو ہم دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر بند باندھ سکتے ہیں ۔