طرز زندگی اور کھانے کی عادات

Posted on at


طرز زندگی اور کھانے کی عادات

ہمارے جسم کے اعضاء اپنے اپنے سسٹم میں اپنے حصّہ کا کام معمول کے مطابق انجام دیتے ہیں تو ہم صحت مند رہتے ہیں اور خدانخواستہ کسی بیماری کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہو جائے تو ہماری صحت اور معمولاتِ زندگی متاثر ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی عوامل ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق ہمارے جسمانی اعضاء کی کارکردگی سے براہ راست ہوا کرتا ہے۔ موروثیت کے علاوہ جو محرکات ان بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں ان میں ہمارا طرز زندگی نمایاں وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے اور یقیناً ایک بہت وسیع موضوع بھی۔

معمولات زندگی میں ہمارے سونے ، بیدارہونے ، کھانے پینے، رہائش سے لے کر گردونواح کا ماحول کام کرنے کے اوقات اور ان سے متعلق ہمارے استعمال میں آنے والی اشیاء اور رابطے میں آنے والے افراد سے تعلق کی نوعیت سب کچھ شامل ہے، زندگی بسر کرنے کے حوالے سے ہر عمر، جنس اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں کچھ مختلف نوعیت کی ترجیحات دیکھنے میں آتی ہیں اور کچھ مشترک۔ دونوں صورتوں میں صحت مند طرز زندگی کا ان میں شامل ہونا ضروری ہے کام کا دباؤ، احساس کمتری، کھانےاور آرام کے اوقات کا مقرر نہ ہونا، غصہ پر فوری قابو پانے کی صلاحیت میں کمی، قوتِ فیصلہ کا فقدان، تنہائی پسند ہوجانا یا پھر اپنی شخصیت اور مزاج میں اچانک کوئی منفی تبدیلی محسوس کرنا، تمباکو نوشی، خواب آوار ادویات کا غیر ضروری استعمال، چند ایسی علامات ہیں جن میں سے تین چار یا ان میں سے زائد کا یکجا ہونا رفتہ رفتہ ہماری صحت کو نا قابل تلافی نقصان کی جانب گامزن کر سکتا ہے۔ لہذا ہم خود اپنے اردگرد یا اپنے کنبہ کے کسی فرد میں ان علامات کو محسوس کریں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وقت آگیا ہے اس سلسلہ میں کچھ عملی اقدامات کا۔

اب بات کر تے ہیں کھانے کی عادات کی کہ یہ کس طرح براہ راست صحت پر اپنے اچھے یا بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان میں ہمارے کھانے کا مینو اور متوازن غذا کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے دیگر اُصولوں کی پاسداری بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سب کے باوجود کئ مرتبہ مختلف وٹامنز، منرلز اور دیگر غذائی اجزاء کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ ہونے کی صورت میں اضافی وٹامنز اور دوسرے سپلیمنٹ کی ضرورت پیش آنے کے امکان ہمیشہ موجود رہتے ہیں اس سلسلہ میں معالج کی رہنمائی کافی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

کچھ روئیے! جنہیں عادات بھی کہ سکتے ہیں ایسے ہیں جن کا تعلق ہے تو کھانے ہی کے ساتھ لیکن اس پر کئ طرح کے حالات اثر انداز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہم اکثر لاشعوری طور پر اپنے وزن میں غیر ضروری اضافہ کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر خدانخواستہ صحت کا نقصان پہنچنے کے امکانات کی زد میں بھی آسکتے ہیں ان کو آسان الفاظ میں (ایموشنل ایٹنگ ڈس اورڈرز) کے نام سے بھی جان سکتے ہیں۔ ان میں ایک وجہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ساتھ دیگر افراد خواہ وہ فیملی میمبرز ہوں، دوست ہوں، یا پھر کولیگ کھانے پر موجود ہوتے ہیں تو بہت خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کو مختلف دیشز کھانے کی ترغیب دیتے ہیں کوئی ان کے ذائقہ کی تعریف کرتا ہے تو کوئی صحت کے لئے ان کی افادیت پر زور دیتا ہے۔ اب ایسے حالات میں انکار کرنا، اُن سے بحث و مباحثہ خاصا غیر اخلاقی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا کئی مرتبہ تو ناپسند ڈیشز بھی انتہائی خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تناول فرماتے ہیں۔

ایک اور وجہ مکمل جذباتی نوعیت کی بھی ہوا  کرتی ہے اسے ہم اکتاہٹ کہہ سکتے ہیں اور کبھی غصہ یا بے اطمینانی، دباؤ ، احساس تنہائی پھر کسی اور کمی کا احساس طبعیت میں عود کر آئے تو اس صورت حال سے باہر جانے کے لئے لاشعوری طور پر بنا بھوک لگے بھی کافی کچھ کھا لیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہی یہ ہوتا ہے کہ کچھ خیال نہیں رہتا کہ کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں۔ بے جا تنقید کا شکار ہونے والے افراد بھی ایسے ہی تجربات سے گزرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160