جہیز، ایک لعنت

Posted on at


شادی کے وقت والدین جو ضرورت کا سامان بیٹیوں کو دیتے ہیں جو وہ اپنے سسرال لے کر جاتی ہیں اس کو جہیز کہتے ہیں. حضور صلی الله علیہ وسلم نے بھی اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کو جہیز دیا لیکن وو جہیز اسلام کی سادگی کے اصولوں کے این مطابق تھا.


آج کل ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت کی صورت میں پھیلا ہوا ہے. غریب والدین کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی بساط سے بڑھ کر ہی جہیز دیں تا کہ ان کی بیٹی کی سسرال میں ناک اونچی رہے. اس خواہش کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی میکے سے جہیز کم لے کر اے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ بات اس کے لئے ناقابل معافی جرم بن جاتی ہے.


ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد جہیز کی وجہ سے جھگڑےشروع ہوتے ہیں اور نوبت بیوی کے قتل یا طلاق تک جا پہنچتی ہے. بہت بار اکبر میں ایسی ہی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں جس میں لڑائی جھگڑے کی وجہ جہیز ہی ہوتا ہے. لوگوں کو لالچ نے اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ لوگ یہ بھول ہی گے ہیں کہ نبی کریم نے ہمیں کس سادگی کا درس دیا ہے. اگر اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جاۓ تو ایسی صورت ہال سے بچا جا سکتا ہے.


جو والدین بیٹیوں کو جہیز نہیں دے سکتے ان کی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں. اور کسی معجزے کا انتظار کرتی رہتی ہیں. ہمارے معاشرے کی انتہائی بری بیماریوں میں سے ایک بیماری جہیز بھی ہے. اور اس بیماری کا علاج ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلامی اصولوں کو رائج کریں. سادگی کو اپنا شعار بنایئں.
اس معاملے میں بھی میڈیا کا ایک اہم کردار ہے. ٹی وی ڈراموں میں لڑکیوں کو اتنا شاندار جہیز ملتا ہے بیٹوں کی مائیں بھی ایسے ہی جہیز کے خواب دیکھنے لگتی ہیں اور نتیجتاً گھر میں لڑائیاں جگھڑے شروع ہو جاتے ہیں جو کہ گھر کا سکوں برباد کر دیتے ہیں. اگر میڈیا سادگی کا درس دے تو اس معاشرے میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے.

یہ بلاگ آپ کے لئے سحر فاطمہ نے لکھا.

 

میرے پچھلے بلاگز کو پڑھنے اور شئیر کرنے کے لئے یہ لنک استمال کریں:
http://www.bitlanders.com/sahar917/blog_post

آپ اپنی راۓ کا اظہار یہاں کر سکتے ہیں:
فیس بک www.facebook.com/sahar.fatima.73932
ٹویٹر sahar awan



About the author

Sahar_Fatima

I am Sahar Fatima. And I am interested in bloging.

Subscribe 0
160