فویلا‘‘ کے حسین رنگ اور ’’ٹوجیکا‘‘ جنگل کی خوش بو

Posted on at


’’فویلا‘‘ کے حسین رنگ اور ’’ٹوجیکا‘‘ جنگل کی خوش بو

ڈاکٹر عائشہ آزادی  اتوار 24 جنوری 2016

شیئرٹویٹتبصرے

مزید شیئر

 

برازیل میں اردو کی تاثیر انگریزی پر بازی لے گئی،’’ریوڈی جنیرو‘‘ میں گزرے سات روز ۔ فوٹو :فائل
ہم پاکستانی اکثروبیشتر اپنے ملکی مسائل اور جغرافیائی پس منظر کی افتاد میں کچھ اس طرح گرفتار رہتے ہیں کہ جب کبھی دنیا کے نقشے پر نظر ڈالتے ہیں سب سے پہلے پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کرتے ہیں اور پھر بعض ہمسایوں پر قہر بھری، بعض پر وحشت بھری اور معدودے چند ایک پر طمانیت بھری نگاہ ڈالتے۔

پہلے تو عقیدت کے ساتھ حجاز مقدس کے شہروں کو تلاش کرتے ہیں پھر قرون وسطیٰ اور الف لیلہ کی داستانوں میں جگمگاتے شہروں کا محل و وقوع دریافت کرتے، زمانۂ حال میں آتے ہیں تو دل چسپی اور دوڑ بنیادی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا یا کینیڈا تک رہ جاتی ہے اور باقی دنیا کچھ یوں ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ اس میں ہمارا بھی کیا قصور کہ ہمارا میڈیا اور دفترخارجہ وہیں متوجہ رہتے ہیں جہاں زر کی جگمگاہٹ نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے، جہاں سے ہمارے زمینی مسائل حل ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔

ایسے ہی اپنے ہم وطنوں کی طرح میں نے کبھی لاطینی امریکا کے ملکوں کو زیادہ غور سے نہیں دیکھا تھا۔ ماسوائے اس احساس کے کہ یہ ملک دنیا پر مسلط سام راج کے خلاف ایک قسم کی مزاحمت کی علامت ہیں اور کھیلوں بالخصوص فٹبال کی دنیا کے عظیم ہیروز نے ان ممالک میں جنم لیا ہے۔

چناںچہ ایک روز جب خوش خبری ملی کہ اپنی پروفیسر، ڈاکٹر فوزیہ ربانی کے ساتھ، بچوں میں نمونیہ اور ڈائریا سے بچاؤ کے لیے ملکی نظام صحت اور لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کی بہتری کے لیے کی گئی میری ایک مطالعاتی تحقیق برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو (Rio de Janeiro) میں منعقدہ طبی کانگریس میں پیش کرنے کے لیے منتخب کرلی گئی ہے اور منتظمین سفر اور زادِسفر کے بندوبست کے لیے ادائیگی کرنے پر بھی تیار ہیں، تو دل کچھ اس طرح دھڑکا گویا مجھے افق کے اس پار جانے کی دعوت ملی ہو کہ اس جگہ کے بارے میں آگاہی کا ایسا ہی عالم تھا اور پھر میں وہاں فٹبالررونالڈو کے علاوہ کسی کو جانتی بھی تو نہیں تھی۔

بہرحال لاعلمی اپنی جگہ، جان لینے کا شوق بھی کچھ کم زور آور نہ تھا۔ ایک پاکستانی کے طور پر اپنے پیارے وطن کی نمائندگی کا جذبہ دیگر سب جذبوں پر حاوی تھا کہ آخر ہم بھی تو پاکستان کا ہی ایک چہرہ ہیں۔

چناںچہ سب سے پہلے ویزا اور ویزے کے حصول کے بارے میں کچھ معلومات اکٹھی کی گئیں۔ چوں کہ خود ویزا لینے اسلام آباد جانا منہگا لگا، اس لیے ٹریول ایجنٹ کی خدمات حاصل کی گئیں، جس نے ملک میں پھیلی حالیہ نفسانفسی اور کرپشن کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے 20 ڈالر فیس والے وزٹ ویزا کی مد میں 22 ہزار روپے کا بل یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ کم سے کم ہیں اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ سے دستاویزات کی تصدیق چار ہزار فی کاغذ کے حساب سے ہوتی ہے۔ بہرحال معاملات چوںکہ آغا خان یونی ورسٹی اسپتال کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں لہٰذا ایجنٹ صاحب کو تمام تر اخراجات کی رسیدیں پیش کرنے کو کہا گیا، جو وہ نہ کرسکے، بالآخر کوریر وغیرہ کے اخراجات ملاکر نصف سے کم میں معاملہ طے پایا۔

اگلا مرحلہ سفر کے لیے ملبوسات کا انتخاب تھا۔ معلوم ہوا برازیل بنیادی طور پر گرم مرطوب ملک ہے اور زمین کے جنوب میں واقع ہونے کے باعث ہمارے ہاں کے موسم سرما وہاں گرمیوں کے مہینے ہوتے ہیں۔ چناںچہ یہ مسئلہ سستے میں طے پایا اور بڑے شوق سے اپنے پاکستانی کپڑے پیک کیے۔ دل چسپ امر یہ کہ وہ وہاں خوب سراہے بھی گئے کہ ہمارے لباس میں نہ صرف یہ کہ ثقافت اور مذہبی روایات کا رنگ جھلکتا ہے، بل کہ مناسب تراش خراش کے ساتھ اس میں بین الاقوامی فیشن سے یکسانیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔

اس طرح لباس اور دیگر زادسفر کی پیکنگ کے ساتھ وہاں قیام کے لیے ہوٹل منتخب کرنا بھی ایک مرحلہ تھا کہ ایسی جگہ ہوٹل لیا جائے جو شہر اور کانگریس کے مرکز سے قریب ہو۔ محفوظ ہو اور معیاری بھی۔ کانگریس کی ویب سائٹ پر قریب ترین ہوٹلز کے نام اور فاصلے دیے گئے تھے۔ ساتھ ہی بکنگ ڈاٹ کام نے مدد دی جو ایسی ویب سائٹ ہے جس پر آپ ہوٹل کی بکنگ کروالیں اور کنفرم بکنگ کی رسید بھی حاصل کریں، جب کہ ادائیگی بے شک وہاں پہنچ کر کریں، کیوں کہ ایسی دوردراز جگہوں کے لیے پاکستان میں بیٹھ کر کریڈٹ کارڈ وغیرہ کا استعمال شاید اتنا محفوظ نہیں ہے۔

 

ان انتظامات سے فارغ ہوکر فلائٹ بکنگ اور زرمبادلہ کا انتظام ہی اہم رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوا تقریباً مساوی فاصلہ ہونے کے باوجود پاکستان سے ریو کا ٹکٹ امریکا کے مقابلے میں دوگنی قیمت کا پڑتا ہے اور برازیل کی کرنسی بھی یہاں دست یاب نہیں، چناںچہ ڈالر ہی خریدنے پڑتے ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ برازیل کا سکہ بھی Real لکھا جاتا ہے اور ریال کہلاتا ہے۔ قیمت میں یہی اپنے سعودی ریال کے لگ بھگ ہی تھا جو برازیل کی ترقی اور مضبوط معیشت کی عکاسی کرتا ہے۔

کراچی سے ریو جانے کے راستے دبئی یا قطر سے گزرتے ہیں۔ سفر کے لیے علی الصبح فلائٹ پکڑ کر سب سے پہلے دبئی میں قدم رنجہ فرمانا ہوتے ہیں اور پھر ریو کے لیے 14 گھنٹے کی طویل فلائٹ لی جاتی ہے۔ ایمریٹس میں سفر کرتے یہ سوچ کر دل افسوس سے بھرگیا کہ اس ایئرلائن کی پرداخت کبھی ہماری قومی ایئر لائن کے شاہینوں نے کی تھی مگر اب ہم کہاں رہ گئے اور وہ کہاں پہنچ گئے ہیں۔ نہ صرف سفر بل کہ جذبات کا اعلیٰ ریکارڈ قائم کرکے ایمریٹس نے بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا ہے۔

دوران سفر کبھی گرم تو لیے پیش کیے جاتے رہے کبھی دیگر گرم ٹھنڈے مشروبات سے تواضع کرتے فضائی میزبان حوروغلمان کا منظر پیش کرتے نظر آئے، کبھی کھانا، کبھی ناشتہ، ٹوتھ پیسٹ، برش، سردی لگے تو موزے، سیٹ کے سامنے ٹی وی سیٹ میں دنیا جہاں کی موویز اور تفریح کا سامان بہم پہنچتا رہا اور ارد گرد کے مسافروں پر نظر ڈالتے رنگ رنگ کے انسانوں کو دیکھتے 14 گھنٹے بالآخر تمام ہوئے اور ریو کے گلیلو ایئرپورٹ پر لینڈنگ کا اعلان ہوا۔

کسی بھی شہر کے اوپر پرواز یا لینڈنگ کا منظر شاید ہوائی سفر کا بہترین حصہ کہا جاسکتا ہے۔ بالخصوص اگر آپ اس شہر کی مخصوص سڑکوں اور عمارتوں سے آشنائی رکھتے ہیں۔ اسی لیے مجھ جیسے مسافر اکثر کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ اور وہ بھی ایسی کھڑکی جو جہاز کے پروں سے دور ہو، حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔

ریو شہر کے بارے میں کچھ جانتی تو نہیں تھی مگر جہاز کی بلندی سے اس کے ساحلوں، پہاڑوں اور گھنے سرسبز جنگلوں کا نظارہ ساتھ ہی گنجان آباد عمارتیں بڑا ہی بھلا منظر پیش کرتی ہیں۔ ہر طرف سے ساحلوں میں گھرا یہ شہر نہ صرف آبادی کے لحاظ سے برازیل کا دوسرا براعظم امریکا کا چھٹا اور دنیا کا نواں سب سے بڑا شہر ہے بل کہ تاریخ کے کچھ ادوار میں برازیل کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔

1950 اور پھر 2014 میں ریو فیفا فٹبال کپ کے عالمی مقابلوں کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کرچکا ہے ، جب اس شہر کی ایک اونچی پہاڑی پر بنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تصوراتی مجسمہ بین الاقوامی میڈیا اور شائقین کی توجہ کا مرکز بنا رہا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا 2016 کے گرما میں ہونے والے اولمپکس بھی ریو میں ہوںگے اور اس طرح اولمپکس کی میزبانی کرنے والا یہ لاطینی امریکا کا پہلا شہر بن جائے گا۔

برازیل چوں کہ تیزی سے ابھرتا ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیے چوری چکاری اور دھوکادہی کے معاملات میں محتاط رہنے کی کافی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسی احتیاط کے پیش نظر میں نے بھی ساتھ لائے ڈالرز کو ایئرپورٹ پر واقع بینک آف برازیل سے تبدیل کروانے میں عافیت سمجھی کہ ان کے ریٹس بہتر اور جعلی نوٹ ملنے کا خطرہ کم تر تھا۔ دوسرا خطرہ جو ایسے شہروں میں مسافروں کے سر پر منڈلاتا ہے وہ منہگے کیب اور ٹیکسی ڈرائیورز ہیں جو ایئرپورٹ پر ہی اپنی اپنی کمپنی کے اسٹال کے پاس منڈلاتے رہتے ہیں۔

ایسی صورت میں بہتر تو یہی ہے کہ اپنے منتخب کردہ ہوٹل کا آفس روم ایئرپورٹ پر ہے تو وہاں جاکر ٹیکسی منگوانے کی درخواست کریں، ورنہ دوسرا مناسب قدم یہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ مجھے دوران سفر ایک ساتھی خاتون نے بتایا تھا کہ اعتماد سے اپنا سامان اٹھاکر ایئرپورٹ کے بیرونی دروازے تک جانے کی زحمت کریں۔ وہاں ریگولر پیلی ٹیکسیوں کی طویل خوش نما قطار پہلے سے موجود ہوگی اور یہ ٹیکسیاں مقررہ میٹر سے چلتی ہیں، جو شروع البتہ 5 ریال سے ہوتا ہے۔

میری لینڈنگ دن کے وقت ہوئی تھی اس لیے مجھے شکل صورت سے معقول نظر آنے والے ایک درمیانی عمر کے ٹیکسی ڈرائیور کا انتخاب کرنے میں مشکل نہیں ہوئی جنھوں نے اندازاً کرایہ جو میٹر بناسکتا تھا اشاروں میں بتادیا تھا۔ جی ہاں، اشاروں میں کیوں کہ یہاں انگریزی ایک مکمل بدیسی زبان ہے، جس سے لاعلمی کو کسی طور باعث شرمندگی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ لوگ پرتگالی زبان بولتے ہیں اور ٹیکسی والے کہیں جانے کے لیے کاغذ پر لکھا پتا اپنی GPS ڈیوائس پر لگاکر آرام سے منزل تک پہنچادیتے ہیں۔

ٹیکسی میں ہوٹل پہنچتے ہوئے ریو شہر پر نظر ڈالی تو اندازہ ہوا قوم کی قوم کھانے، پینے پلانے اور گرما کو یورپی انداز میں منانے پر یقین رکھتی ہے اور بہت زیادہ صفائی ستھرائی اور حد سے زیادہ ڈسپلن ان کی فطرت کا جزو نہیں اسی لیے یہ اپنے الگ تھلگ ملک میں خوش باش اور مگن رہتے ہیں۔

باہر سے آنے والوں سے انکسار اور گرم جوشی سے ملتے ہیں، راستے بتانے پر تیار و آمادہ ملیں گے، مگر جب ہم جیسے انگریزی کے متوالے ان کی بات نہیں سمجھ پاتے اور ساتھ ہی انگریزی بگھارنے کی بھی کوشش کرتے ہیں تو یہ بلا تکلف بے اعتنائی سے بات ادھوری چھوڑ کر ایک طرف کو چل دیتے ہیں۔ انگریزی کے ناکام تجربوں کے بعد میں نے بھی اس بدیسی زبان کو ایک طرف رکھا اور اشاروں کے ساتھ سیدھے سیدھے اردو میں مقامی لوگوں سے بات چیت کا آغاز کیا، جس کی تاثیر انگریزی سے بہتر پائی۔

ہوٹل پہنچنے پر مقامی کرنسی میں ادائیگی کرنا بہتر ہے، کیوں کہ اکثر ہوٹل مالکان کرنسی ریٹ سرکاری ریٹ سے بد تر ہی لگاتے ہیں۔ ہمارا ہوٹل شہر کے بیچوں بیچ ریو کے مرکز میں واقع تھا، چناںچہ وہاں مقامی زندگی اور ثقافت کی چہل پہل بڑی زندہ دلی سے سامنے آئی۔ پورے ہوٹل میں ایک واحد ریسیپشنسٹ (Receptionist)انگریزی سے کچھ واقف تھا، چناںچہ اگلے چار پانچ دنوں کے لیے وہ مشورہ لینے کا ذریعہ بنا رہا۔

موصوف نے پادری بننے کے لیے مذہبی تعلیم میں بیچلرز کیا تھا اور چرچ مشن کے ساتھ لیکچر دینے ہندوستان جانے کے خواہش مند تھے، جس کے لیے پیسے جمع کیے جارہے تھے۔ انگریزی کی سوجھ بوجھ کی وجہ ہالی وڈ کی فلموں کا چسکا تھا، جن کے ڈائیلاگ سمجھنے کے لیے وہ پرتگالی ترجمہ اسکرین پر پوری دل جمعی سے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا یہاں پاکستان سے اور کوئی ٹھہرا ہے؟ جناب نے پورے یقین سے لسٹ دکھاکر اثبات میں سرہلایا اور کچھ ناموں کی طرف اشارہ کیا، جن میں احمد، حسن اور عماد آتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا یہ پانچ نائیجیرین لیڈی ڈاکٹرز کی ٹیم تھی، جو اسی کانگریس میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ ان سے اچھی جان پہچان ہوئی اور مسلم بہنوں والے جذبات نے پرورش پائی۔

 

اسی ہوٹل کی لابی میں آتے جاتے کچھ ملی جلی اردو کے جملے کانوں میں پڑے اور معلوم ہوا بھارتیوں کا ایک وفد بھی کانگریس میں شرکت کے لیے ٹھہرا ہے اور ایک صاحب کو چھوڑ کر جن کا تعلق غالباً جنوبی ہند سے تھا پاکستانیوں کے لیے خاصی خیر سگالی کے جذبات رکھتا ہے۔ مزیدبرآں عمران خان کی وجاہت اور سیاست دونوں سے ہی خاصا متاثر ہے۔ ان سے بھی ہمسائیگی کا ناتا رہا اور مودی سرکار کی تنگ نظری پر تنقید کے ساتھ جب بھارتی فن کاروں کے لیے پاکستانیوں کی کشادہ دلی کا اظہار کیا گیا تو بداعتمادی کا غبار خاصا چھٹ سا گیا۔

ریو پہنچ کر پہلا دل چسپ تجربہ یہ ہوا کہ میں گویا ٹائم ٹنل میں سفر کرکے زندگی کے ایک دن کو دوگنا کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ ہوا یوں کہ 16 تاریخ کو کراچی سے عازم سفر ہوئی تھی، دبئی میں قیام ملاکر سفر کچھ بیس بائیس گھنٹوں پر محیط تھا اور اپنے حساب سے ستر کو ریو پہنچنا تھا۔ تاہم وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ابھی تو سولہ تاریخ ہے۔

بہرحال یہ ایک اضافی دن مرکز شہر کی سیر کرنے، تھکن اتارنے اور سیاحتی پروگرام تشکیل دینے کے لیے مل گیا، جس میں ہوٹل کے اطراف میں گھوم پھر کر سونے کے خول چڑھا خوب صورت تھیٹر اور امریکا کے اسٹیچو آف لبرٹی کے تھیم پر بنا ایک خاتون کا خوب صورت مجسمہ ملاحظہ کرلیا گیا، جس کے اوپر اٹھے ہاتھوں پر کبوتر آکر بیٹھتے تو لگتا گویا دانہ چگ رہے ہیں۔ اسی دوران علاقے میں واقع ایک ٹیوب اسٹیشن میں جانا ہوا جو پہلے کبھی ایک غار تھا اس غار نما ٹیوب اسٹیشن کی خاص بات یہ تھی کہ قدیم غار کی دیواروں کے کچھ حصوں کو برقرار رکھا گیا تھا، جن پر آرٹ کے خوب صورت نمونے اپنی بہار دکھارہے تھے۔

شہر میں ٹیکسیاں اور لیموزین کیب تو قدم قدم پر ملتی ہیں تاہم آمدورفت کے بہترین ذرائع میں زیرزمین ٹیوب اور سڑک پر چلنے والی بسوں کا نظام قابل تعریف ہے۔ لوگ موبائل فون ایپلیکشن کے ذریعے آمدورفت کا مقام ڈال کر بہ آسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ کونسی بس کہاں جائے گی اور کس جگہ سے ملے گی۔

ٹیکسیاں سیدھے راستوں پر جانے کے لیے ٹھیک ہیں، مگر گھومتے پھرتے راستوں میں ٹیکسی ڈرائیور بدنیتی سے راستے لمبے کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے ایسا کرنا اس لیے بھی ممکن ہے کہ زیادہ تر سڑکوں پر ٹریفک یک طرفہ ہے، ٹریفک قوانین کی پابندی کی جاتی ہے اور یک طرفہ سڑکوں کی وجہ سے آنے اور جانے کے راستے مختلف ہوجاتے ہیں۔

چوںکہ اس ابتدائی دن کی فرصت کے بعد کانگریس اور اس سے متعلق امور میں مصروف ہوجانا تھا، اس لیے اس پہلے دن کو غنیمت سمجھتے ہوئے ریو شہر کی فضاؤں اور رنگارنگی کو نگاہوں میں بسانے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا۔ وہ ایک اضافی دن جو زندگی میں کبھی کبھی کسی خوش قسمت کے ہی ہاتھ آتا ہے۔

اگرچہ بعد میں کانگریس سے نمٹ کر کچھ اور پُرفضا جگہیں دیکھنے کی بھی ٹھان رکھی تھی مگر شہروں کا اصلی حسن سیاحتی مراکز نہیں ان کے پرانے گلیوں، بازاروں اور متوسط طبقے کے محلوں میں ہی نظر آتا ہے، جہاں ٹھیلے والے سستی اشیا کی آوازیں لگاتے ہیں اور عورتیں بچوں کو کمر سے باندھے ہاتھ سے بنی اشیا فروخت کرتی ہیں۔

برازیل میں ایسی روایتی کچی آبادیوں کو فویلا کہتے ہیں۔ یہ فویلا اکثر پہاڑیوں پر آباد ہیں یہاں لاطینی امریکا کی رنگین ثقافت بھرپور طور پر اپنی تمام تر رنگا رنگی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ مکانات پر کیے گئے رنگ برنگے پینٹ، سیڑھیوں کی خوب صورت بنے راستے، سیڑھیوں پر ناریل پانی بیچتی خواتین اور بچوں کو ٹہلاتے بزرگ ایک وسیع کینوس کا سرگرم حصہ معلوم ہوتے ہیں۔

فویلا سے عالی شان بازاروں تک ریو کے ہر بازار میں برازیلین فٹبال ٹیم کا پیلا رنگ اپنی آب و تاب دکھاتا نظر آتا ہے۔

متوسط آبادیوں میں بسنے والے ہنستے، ناچتے گاتے لوگ باقی دنیا سے اس قدر لاتعلق اور عمومی فکروں سے اس قدر آزاد محسوس ہوتے ہیں کہ سچ مچ ان پر رشک آتا ہے، ان ہنستے گاتے لوگوں کی شرح خواندگی نوے فی صد سے اوپر ہے اور ان کی ملکی معیشت تیزترین معیشتوں میں پہلے نمبر پر آچکی ہے۔ مذہباً یہ عیسائی ہیں مگر مذہب تعصبات اور دہشت گردی کی عالمی سیاست سے بھی لاعلم سے نظر آتے ہیں۔

اس پہلے دن کے تاثرات اتنے بھرپور تھے کہ بعد کے دنوں میں ریو جیسے شہر میں کوئی خاص اجنبیت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ کوئی میری طرف متوجہ نہیں، کسی کو میرے مسلم یا پاکستانی ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور کسی کو میری زبان بھی نہیں آتی۔ چاہے ان سے اردو میں بات کروں یا انگریزی میں ان کی سمجھ کے ترازو میں دونوں ہم وزن ہیں۔ یہ احساس کچھ جاںفزا رہا۔ غالب کی ایک خواہش یاد آئی:

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

اگرچہ غالب نے تو اس غزل میں یہ بھی کہا ہے، ’’پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیماردار‘‘ تاہم بیمار پڑنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں بنا۔ البتہ اسپتالوں میں قدرتی دل چسپی کی وجہ سے سرکاری اسپتال کا یونہی سا چکر ضرور لگایا اور ڈاکٹروں کو منہمک، نرسوں کو مگن، دیگر عملے کو چوکس اور مریضوں کو بالکل پرسکون پایا۔

اگلے دن جب کانگریس کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے شرکا کے ناموں پر مشتمل بورڈ کی کشش نے اپنی طرف کھینچا۔ پاکستان سے آئے لوگوں کی ننھی منی لسٹ نظر آئی اور اس میں اپنے میڈیکل کالج کے پروفیسرز کے نام نظر آئے تو یوں لگا گویا سوکھے دھانوں پر پانی پڑگیا ہو اور دل کی کلی کھل اٹھی۔

 

زیادہ تر لیکچرز تو ان ہم وطنوں، بھارتیوں اور نائیجیرین رفقا کے ساتھ اٹینڈ کیے، البتہ ایک میں الگ ہوئی کہ متوازی لیکچرز جاری تھے اور میں پولیو کے خاتمے میں ناکام پاکستان اور افغانستان کو درپیش چیلینجز کے بارے میں لیکچر اٹینڈ کرنے کی خواہش مند تھی۔ یہ لیکچر بھی ایک غیرملکی نے دیا اور خیال آیا کہ کاش اس موضوع پر اپنی نمائندگی اور دفاع ہم خود یا کوئی افغانستان سے کرتا۔ لوگوں نے پوچھا آخر اس لیکچر کا تمہیں کیوں انتظار ہے؟ دل کی بات چپکے سے زبان پر آگئی کہ اس میں وطن عزیز کا ذکر جو ہوگا۔

ساتھی ضرور چونکے اور دماغی حالت پر شک بھی کیا کہ یہ کوئی فخریہ مقام تو نہ ہوگا مگر میرے شاعرانہ تخیل نے اس کی بھی تاویل گھڑلی کہ خیر ہے، بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ اور بے شک اپنی حالت کے ہم خود ذمے دار ہیں مگر ان کے اخلاقی انحطاط کی کیا حد ہوگی جنھوں نے اپنے جاسوسی مقاصد کے لیے پولیو مہم کو استعمال کرکے اس پروگرام کو ہی پاکستان میں معتوب کردیا ہے۔

اس دوران ایک ہندوستانی مسلمان ڈاکٹر صاحب اس امر پر بغلیں بجاتے ملے کہ بین الاقوامی تحقیق و طب سے متعلق پلیٹ فارمز پر ایک ایک پاکستانی کے مقابلے میں چار چار بھارتی شرکا ہوتے ہیں۔ میں نے ادب سے عرض کیا، بھارت کی آبادی بھی چار گنا سے زیادہ ہے۔ تاہم افسوس یہ ہوتا ہے کہ چار چھے بھارتی بے شک ملتے ہیں، لیکن ان میں بھارتی مسلمان کہیں نظر نہیں آتے۔ پاکستان سے زیادہ نمائندگی تو امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے ناں۔ اس پر وہ چپ سے ہوئے اور شاید پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ کی معنویت بھی انھیں کچھ سمجھ آئی۔

اس کانفرنس کے بعد بچے ہوئے دن ریو کے مشہور و معروف سیاحتی مقامات پر گھومنے کے لیے وقف تھے، جن میں سب سے پہلے تو وہاں کے سفید ریت سے سجے ساحل شامل تھے مگر وہ ہر طرف یوں بکھرے تھے کہ جس راستے پر جائیں ایک ساحل آپ کے قریب سے نمودار ہوجائے گا۔

ہر ساحلی پٹی کی اپنی خصوصیات ہیں جن میں کوپا کبانا (Copacabana) خاص طور پر مشہور ہے، اس کے ساتھ ہی برازیل کی فوج سے متعلق ایک قلعہ اور میوزیم ہے، جس میں اس ملک کی قدیم تاریخ اور ریڈانڈین باشندوں پر یورپی بل کہ پرتگالیوں کی یلغار کے آثار ملتے ہیں، تو قدیم ترین صلیب کی علاقے میں آمد کے مناظر بھی واضح ہیں۔ تاہم اس ساحل کی خاص بات یہاں ایک مقام پر سورج ڈوبنے کا منظر ہے، جسے دیکھنے لوگ جمع ہوتے ہیں اور سورج ڈوبنے پر افق پر بکھرے رنگوں کی خوب صورتی سے مبہوت ہوکر روایتی طور پر تالیاں بجاتے ہیں۔

 

کوپا کبانا بیچ سے ایک خوب صورت پس منظر شوگر لوف ماؤنٹین کا نظر آتا ہے۔ شوگر لوف ماؤنٹین پر جانے کے لیے 71 ریال کا کیبل کار کا ٹکٹ لینا ہوتا ہے۔ تاہم طالب علموں اور معمر افراد کے لیے یہ 35 ریال کا پڑتا ہے۔ 396 میٹر بلند پہاڑی کی چوٹی سے شہر کا خوب صورت منظر ہی نہیں بل کہ اُرکا (Urca) کی ساحلی پٹی جو اس پہاڑی سے متصل ہے، حسین منظر پیش کرتی ہے۔

کیبل کار کا سفر خود اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے اور سیاح اس مقام پر تصویریں بنانے کو بے تاب نظر آتے ہیں، بلندی سے اُرکا کے ساحل پر اٹلانٹک کی موجوں کا کھیل بہت ہی دل چسپ معلوم ہوتا ہے۔

ریو کا ایک پسندیدہ سیاحتی مقام بوٹا نیکل گارڈن بھی ہے، مگر شہر کی جان کرائسٹ کا بلندقامت مجسمہ جو ہر طرف سے نظر آتا ہے اور اس سے قریب واقع ٹوجیکا فاریسٹ (Tujica Forest) ہے۔ اگر آپ مناظر قدرت سے محبت کرتے ہیں، آپ کے اندر ایک بے چین روح جنگلوں کے اسرار بے نقاب کرنے کو تڑپ رہی ہے اور پیدل چلنا اور چلتے رہنا آپ کے لیے تکلیف دہ نہیں تو اس جنگل کا رخ کرنا بنتا ہے۔ تاہم اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے آرام دہ جوتے، مکمل ڈھکے ہوئے کپڑے جو عجیب الخلقت موٹے موٹے مچھروں سے بچاسکیں اور پانی کی بوتل رکھنا لازم ہے۔

جنگل میں پہاڑی چڑھائیاں ہے اترائیاں ہیں، آبشار، جھرنے، کہیں کہیں کاٹج، چرچ اور ریسٹورنٹس، یہاں کا بھرپور فطری ماحول اور جنگلی پودوں کی خوشبو ریو تک کے طویل سفر کا حاصل ہے۔ مجھے مری کے جنگلات اور شکر پڑیاں اس جنگل کے مقابلے میں کہیں خوب صورت لگتے ہیں، مگر اس میں شک نہیں کہ ٹوجیکا میں فطرت کو اس طرح اس کی اصلی صورت میں جلوہ گر ہونے کا موقع ملا ہے کہ سیکڑوں سیاحوں کی موجودگی میں بھی ہر شخص اور چیز جو بیرونی ہے بے معنی سی ہوجاتی ہے، باقی رہتا ہے تو ٹوجیکا کا قدرتی سبز جنگل اس کے جھرنے اور آبشار۔

اس جنگل میں اب بھی دل کہیں اٹکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آج بھی جب میں ریو میں گزرے دنوں کے بارے میں تصور کرتی ہوں تو اس جنگل کے پھول پودوں اور سوندھی مٹی کی خوشبو میرے ارد گرد بکھر جاتی ہے۔ برازیل کا مشہور سامبا رقص، کرائسٹ کا مجسمہ اور شوگر لوف کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور سامنے فویلا کے رنگ اور سانسوں میں ٹوجیکا کی خوشبو، کانوں میں اس کے جھرنوں کی آوازیں سی رہ جاتی ہیں۔

 


TAGS:


About the author

160