ہمارا رزق اور اللہ کا وعدہ

Posted on at



اللہ تعا لیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے،’’ اور زمین پر چلنے والا کوئی  ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔’’


اس وسیع و عریض کائنات میں ہماری معلومات کے مطابق زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جس پر زندگی اپنی تمام تر لوازمات اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے،  زمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین مخلوق یعنی انسان کے لیے مسخر کردیا ہے،  اور انسانی بقا  کے لیےاس کرہ ارض کو تما م   اسباب سے مالا مال کردیا ہے، انسان کسی پریشانی کے بغیر ان تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔



اللہ تعا لیٰ سورۃ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے۔’’ بے شک آسمانوں اور زمیں کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس(بارش) کے پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد  زندہ کرتا ہے(وہ زمین)جس مین اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیے ہیں اور ہواؤں  کے رخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکم الہٰی کا ) پابند(ہوکر چلتا)ہے (ان میں) عقلمندوں کے لیے (قدرت الہٰی کی بہت سی ) نشانیاں ہیں۔’’



کائنات کا ایک ایک ذرہ جہاں زمین کو زندگی مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، وہیں زمین پر نظر ڈالیں تو زمین پر زندگی مسکراتے ہوئے  دکھائی دیتی ہے،


سمندر ایک حیرت بھری دنیا ہے جو کہ لاکھوں مخلوقات کا مسکن ہے  جن کا نظام زندگی بہت منظم ہے، ہم اس سمندر سے سالانہ لاکھوں ٹن خوراکحاصل کرتے ہیں، لاکھوں لوگ اسی سمندر سے اپنی روزی کما رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے، ’’ حلال ہے تمہارے لیے دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لیے۔’’ یہی سمندر خوراک کی بڑی گزر گاہ بھی ہے اسی کے ذریعے خوراک اور دوسری اشیاء ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم لے جائی جاتی ہیں،



زمیں پر موجود جنگلات میں جہاں تما جانداروں کا 70 فیصد بستا ہے وہیں  ان میں سے حلال جانوروں کو بطور خوراک استعمال کیا جاتا ہے،  اس کے علاوہ دیگر غیر حلال جانوروں سے بھی فائدہ لیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سورۃ نحل میں ارشاد فرماتا ہے، ’’ اور (اللہ نے)  چو پائے پیدا کئے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو، اور تمہارے لیے ان میں زینت ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ تم اس تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہو کر۔ بے شک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔’’


زمیں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس قدر رحمت بنایا ہے  اور اتنا منظم نظام عطا فرمایا ہے ،  کسان محنت کر کے زمین ہموار کرتا ہے اور اس میں ہل چلاتا ہے اور اس میں بیج ڈالتا ہے اور اس کو پانی لگاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان میں سے طرح طرح  کا رزق انسان کے لئے عطا کرتا ہے،



کیا ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ایک چھوٹا سا دانہ زمین میں ڈالنے کے بعد کون اس کو اتنا زیادہ کر دیتا ہے کہ ہرے بھرے کھیت اناج اگلنے لگ جاتے ہیں اور درخت پھلوں سے بھر جاتے ہیں،


اللہ تعالیٰ سورۃ عبس میں فرماتا ہے، ’’ تو آدمی کو چاہیے کہ اپنے کھانوں کو دیکھے کہ ہم نے اچھی طرح پانی ڈالا۔ پھر زمین کو خوب چیرا۔ تو اس میں اگیا اناج۔اور انگور اور چارہ۔ اور زیتون اور کھجور اور گھنے باغیچے اور میوے اور (مویشیوں کا)چارہ ، تمہارے اور تمہارے چو پائے کے فائدے کے لیے۔



اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے لیے ہر طرف سے رزق عطا فرما کر اپنا دعدہ سچا کر دیا ہے، یہ انسان ہی ہے جو کہ انسان کا دشمن بنا ہو ہے، بعض ممالک سالانہ ہزاروں ٹن خوراک سمندر میں پھینک دیتے ہیں مگر غذائی قلت کے علاقوں میں نہیں دیتے ، سمندر پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں ، ٹیکنالوجی کو اپنے تک محدود کر دیا گیا ہے، ہر طرف فرعونیت  ہی نظر آتی ہے،  دنیا کے بڑے ممالک جو کہ غذائی قلت کو باآسانی دور کر سکتے ہیں ، صرف میڈیا پر باتیں بناتے نظر آتے ہیں، عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہی کرتے ہیں،  ہمیں انفرادی طور پر بھی اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھیں اور حضرت عمرؓ  نے فرمایا تھا کہ اگر فراط کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے اس کا حساب ہو گا، حضرت عمرؓ کا یہ قول انسانیت کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے۔




About the author

160