منشیات کی لعنت اوراس کا سد باب

Posted on at


دور حاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ منشیات جنہوں نے زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ نشوں کے رسیاء اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ایسے نا شکر گزار بندے ہوتے ہیں جو ا س کی عطا کردہ زندگی کی قدر کرنے کی بجائے اسے برباد کرنے پر تلے رہتے ہیں اور منشیات فروش ملک وملت کے وہ دشمن ہے جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ انھوں نے صرف چند سکوں کی خٓطر ایسے شگوفوں کو شاخوں سے توڑ کر گندگی کے ڈھیر پر رکھ کر دیا جنہیں کشت حیات میں قاصد بہار بنتا تھا۔بلاشبہ ہمارے معاشرے میں منشیات نے اغیار کی سازشوں سے راہ پائی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ملک دشمن عناصر کا بھی عمل دخل ہے۔ ان بیرونی اور انددرونی دشمنوں کا مدعا صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر کھوکھلا کر دیا جائے کہ وہ دنیا میں اپنا متحرک کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ یہ طاقتیں اہل چین کے ساتھ بھی یہ ہتھکنڈا آزما چکی ہیں اور انہیں سالہا سال افیون کا عادی بنا کر ترقی کی دوڑ میں پسماندہ بنا نے کی مذموم کوشش کر چکی ہے۔


 


کتنی اذیت ناک بات ہے کہ سگریٹ، شراب، افیون، ہیروئن اور نشہ آور ادویات کی مخالفت تو سب کرتے ہیں مگر ان لعنتوں کا سد باب کرنے میں مخلص کوئی بھی نہیں۔ حد یہ ہے کہ سگریٹ قانونا جائز ہے اور جابجا دھڑلے سے فروخت کی جا رہی ہے، لیکن اخلاق و قانون کا مذاق اس طرح اڑا جا رہا ہے کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر اس کے مضر اثرات کا اعلان بھی ساتھ ہی چھاپا جاتا ہے۔ یہ منافقت ذرائع ابلاغ، حکومت اور اخلاق سدھار اداروں کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم فکری، روحانی اور جسمانی اعتبار سے مفلس ہوتی جا رہی ہے۔نشہ آور چیزوں کے رسیاء عموما وہ نوجوان ہوتے ہیں جنہیں ابھی زندگی کے تجربات نہیں ہوتے۔ جواتنا بھی نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے درمیان کتنا کم فاصلہ ہے۔ وہ موت سے قبل اپنے آپ کو زندہ درگور کر لیتے ہیں۔ ایک تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں ہیروئین کے عادی لوگوں کی تعداد سترہ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ جس میں سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بھی دیہاتی لوگ بھی شامل ہیں۔ عام طور پر ۱۸ سے ۳۰ سال تک کعے نوجوان نشے کی عادی ہیں مگر ۱۰ سے ۱۴ سال تک کے بچے بھی اس عادت کے شکار پائے گئے ہیں۔ ہیروئین کا نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کیونکہ اس کی تھوڑی سی مقدار سے زیادہ نشہ حاصل ہوتا ہے اور اسےچھپا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔


 


نشہ آور چیزیں با لخصوص ہیروئین انسان کے وجود کو گھن کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ ہیروئین کے عادی کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے۔ سننے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ناک ہر وقت بیتی رہتی ہے، آنکھیں سرخ، پپوٹے بھاری اور پلکیں گرم رہتی ہیں۔ آنکھ جھپکنے کا عمل سست ہو جاتا ہے۔ بھوک کم ہو جاتی ہے وزن گھٹنے لگتا ہے اور معدے میں السر یا زخم پیدا ہو جاتے ہیں خون خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجےمیں تمام اعضائے جسمانی متاثر ہوتے ہیں۔ جو انسان کےلیے موت کا باعث بن جاتے ہیں۔


 


منشیات کی روک تھام کسی ایک فرد، ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس مسئلے کو ملکی و قومی سطح پر مشترکہ انداز سے حل کیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلے ذرائع ابلاغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسائل کو کو اس لعنت کے خلاف صدق دل سے معرکہ آرا ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور ارباب اختیار کڑی نظر سے نوخیز نسل کا جائزہ لیں اور ان کو منشیات سے  بزورر روکیں۔ اس سلسلے میں تقاریب، وئڈیو، فلمز، سیمینا اور لیکچروں کا اہتمام کرنا چاہیے علماء اکرام اپنے خطبوں میں اسی قومی مسئلے کو اہمیت دیں اور اس کی زہر ناکیوں سے آگاء کریں والدین جہاں اولاد کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں وہاں ان کی تربیت کو بھی اپنا فرض جانیں اور ان کے شب و روز کی سرگرمیں پر کڑی نظر رکھیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت کو قانونا اس لعنت کے انسداد کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ کمپنیاں اور افراد جو منشیات کو فروغ دے رہے ہیں یا اس کے فروغ میں معاون ہیں اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔


 


ملک و ملت اور انسانیت کے ان مجرموں ااور ان کے مددگاروں کو بے نقاب کرنا ہر محب وطن کا فریضہ ہے۔ اسلیے ان کی پردہ پوشی ان انسانوں پر ظلم ہے جن کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی گئی ہے۔ جن کے چہروں سے زندگی کے آثار نوچ لیے گئے ہیں اور جن کی زندگی کی رونقوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انسداد منشیات کے اداروں اور علاج گاہوں میں نشہ کے عادی افراد کے ساتھ رحمدلی، ہمدردی اور محبت کا سلوک کیا جائے۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ وہ اپنی قوت ارادی اور علاج سے اس عذاب سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور پھر اسے ایک فعل اور مفید انسان بن سکتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اسی دینی اور روحانی فضا کی تشکیل ضروری ہے اس سے اللہ کا خوف اور اسلام اور مذہبی اقدار سے وابستگی پیدا ہوتی ہے۔  


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160