انسان اور انسانیت

Posted on at


اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جس قدر چیزیں پیدا کی ہے ان سب سے افضل اور اشرف انسان کو پیدا کیا ہے۔ گویا انسان اشرف المخلوقات ہے اسے کائنات کی جملہ مخلوقات پر فوقیت برتری حاصل ہے، یہاں تک کہ ہاتھی، زرافہ، شیر اور ریچھ وغیرہ جو جسامت اور طاقت میں انسان سے کئی گناہ زیادہ ہیں مگر سب انسان کے تابع فرمان ہیں اور انسان محض اپنی عقل کے بل بوتے پر ان تمام مخلوقات پر غلبہ پا لیتا ہے اور ان سے جس قدر کام چاہتا ہے لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمہ اقسام کی قوت اور جسامت وغیرہ ہر شے کو عطا کی ہے مگر عقل جیسی نعمت لازوال صرف انسان کے ہی ودیعت فرمائی ہے جو کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آئی۔ اس کی یہی ایک صفت اسے سب پر غالب کرتی ہے اور بلند درجہ بخشی ہے خداوند تعالیٰ نے خود اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے کہ۔


‘‘ہم نے انسان کے بہترین انداز میں پیدا کیا ہے ۔’’


 


اس سے مراد یہی ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے عمدہ اور بہترین مخلوق انسان ہے اللہ تعالیٰ نے گویا انسان کو بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں اس کف خاک کو اس قدر بلند درجہ اور مقام علی بخشا ہے کہ اپنی نبوت اسے عطا کی ہے حالانکہ فرشتے نبوت اور خلافت کے خواہشمند تھے اور وہ اپنے آپ کو اس مقام کے مستحق بھی سمجھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت خاص کے تحت انسان کو یہ دونوں بلند درجات عطا فرمائیں ہیں۔


 


انسان کا درجہ اور مقام فرشتے سے بلند ہے لیکن اس مقام اور بلندی و رفعت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے انسان کو بے حد محنت کی ضرورت ہے۔ یعنی ان تمام فرائض اور حقوق کی پابندی اور تکمیل ضروری ہے جن کی بناء پر انسان صحیح معنوں میں انسان بنتا ہے ورنہ ہر شخص جس کے دو کان، دو آنکھیں، ایک ناک، دو ٹانگیں اور دو ہاتھ ہیں انسان کہلاتا ہے۔ مگر جھوٹ اور مکر و فریب سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے بھائی بندوں کے مال و اسباب پر غاصبانہ قبضہ کرتا ہے۔ قتل و غارت کرتا ہے انسان خون بہاتا ہے مال و متاع لوٹ لیتا ہے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ شراب پیتا ہے اور بد مستی کے عالم میں مغلظات بکتا ہے۔ دوسروں کو دھوکہ اور فریب دے کر اپنا شکم بھرتا ہے ایسا انسان انسان کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو حیوان اور چوپائے سے بھی بدتر ہے اور کسی طرح بھی ان نعمتوں اور صفات کا مستحق نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہے۔


 


ایسا شخص کبھی بھی انسانیت کے مقام پر اعلیٰ اور بلند درجہ کا استحقاق نہیں رکھتا۔ جو فریبی، دغا باز، غاصب، مکار، ظالم اور قاتل ہے۔ وہ انسانیت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے، سگ دنیا ہے جو دنیاوی دولت کی خاطر مکاری اور عیاری سے کام لیتا ہے اور عاقبت کی دولت بے مثال کو با لکل فراموش کر بیٹھتا ہے۔ لہٰذا جو شخص دنیاوی دولت کو ہیچ سمجھتا ہے اور روحانی دولت کا طلبگار ہے وہ اس قدر مرتبہ رکھتا ہے کہ فرشتہ بھی اس کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔


 


الغرض انسان کو کہ انسانیت کی معراج پر پہنچنے کے لیے انسانی ترغیبات کے بے حد دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ فرشتہ ان کیفیات سے با لکل نا آشنا ہے اور ہر وقت یادالٰہیٰ میں مستفرق رہتا ہے انسان ان دشواریوں ہر قابو پاکر پھر یاد الہیٰ میں مشغول ہوتا ہے اس اعتبار سے انسان بننا فرشتے سے بہتر ہے لیکن اس میں بہت محنت درکار ہے یعنی انسان بڑی آزمائشوں اور محنت کے بعد صحیح معنوں میں انسان بنتا ہے۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160