(وطن دوستی کے تقاضے(دوسرا حصہ

Posted on at


وطن کی محبت ایک نعرہ نہیں، اس کے تقاضے بڑے کڑے ہیں۔ وطن کی محبت بے غرض خدمت کا تقاضا کرتی ہے اگر اہل وطن کے خمیر میں وطن کی محبت رچی ہوئی ہو۔ تو وہ ہر قسم کی قربانی کے لیے ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔ وہ وطن کی عزت کے امین ہوتے ہیں اور اس امانت کا حق ادا کرتے ہیں۔  وہ محنت کرتے ہیں کہ وطن عزیز کے چپے چپے پر گل گلزار کھلائیں۔ ان کے دل میں جذبہ تخلیق و ایجاد ہوتا ہے۔ وہ تعمیر کے بیچ بوتے ہیں اور عظمت کا پھل کاٹتے ہیں۔ وہ اپنے عیش و آرام کے ایک ایک لمحے کو وطن کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ وطن کی خدمت اور عزت پر بد دیانتی، کاہلی، آرام طلبی اور عیش پسندی کا داغ نہیں لگنے  دیتے وہ وہ جس مٹی کا دیا کھاتے ہیں اس کو قدموں تلے نہیں روندتے بلکہ اس کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں اور اپنی انتھک اور سر توڑ کوشش سے اپنے وطن کی تجارت، تعلیم، تہذیب اور صنعت و حرفت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔


 


وطن کی محبت ہمدردی اور اخوت کے جذبے کو بیدار کرتی ہے۔ جن لوگوں کا مطمع نظر محض یہ ہو کہ وطن کی مٹی سے سونا حاصل کیا جائے اور اسے اپنے ذاتی مفاد کی تزئین و آرائش پر صرف کیا جائے، وہ محب وطن نہیں، محض ابن الوقت ہیں۔ وہ وطن کی خاک پر بوجھ ہیں۔ ان کے دل محب وطن کو جزو ایمان نہیں بنا سکے۔ وطن کا ایک خادم مخدوم بن کر دوسروں سے خدمت کراتا ہے تو دنیا کا کوئی فلسفہ اسے محب وطن کہہ سکتا ایک رشوت خور افسر اور وطن دشمن جاسوس میں کوئی فرق نہیں دونوں وطن کی عزت بیچ کر زندہ رہنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔


 


دیانت، ایمانت اور ایثار یہ ہیں حب وطن کے سب سے اہم تقاضے جو فرد بھی اس معیار پر پورا نہیں اترے گا وہ دشمن وطن ہے خواہ وہ ایک مزدور ہو یا ایک کارخانہ دار کسان ہو یا بہت بڑا زمیندار، ایک خاک نشین ہو یا ایک اونچے محل کا باس، ایک طالب علم ہو یا ایک عزت ماب استاد، چپڑاسی ہو یا ایک اعلیٰ افسر جس نے اپنے فرض کو نہ پہچانا، اس نے یقیناًحب الوطنی کا حق ادا نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے، اپنا محاسبہ کرتا رہے اور سوچے کہ اس کے طرز عمل سے وطن کی عظمت مجروح تو نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وطن کی محبت ہے کہ ہر آدمی اپنے آپ کو وطن کا معمار سمجھے اور اس کا ہر فعل اور اس کی ہر بات اس کے وطن کی عظمت میں اضافہ کرے۔


 


ذاتی مفادات اور خود غرضیوں نے آج عالمی روگ کی شکل اختیا کرلی ہے، حب وطن کا خوشگوار جذبہ بھی تنگ نظری کی علامت بن کر رہ گیا ہے اور اہل دنیا انسانیت اسلام کے وسیع معنوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے وطن سے محبت کا نظریہ محدود نہیں ہے بلکہ اس کی وسعتوں میں ساری دنیا سما جاتی ہے۔ وطن کا تصور مسلمانوں کے لیے جغرافیائی حدود کا پابند نہیں تاہم ہمارا فرض ہے کہ جن ملکوں میں رہیں ان کی محبت کو ہر چیز پر مقدم رکھیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ممالک کے باشندوں سے نفرت کریں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت ہمارا ایمان ہو اور دنیا کے سب مسلمانوں اور انسانوں سے محبت کی جائے۔


    



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160