بچوں میں یوں تو بہت سی عادات پائی جاتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوجاتی ہیں اسی طرح ان میں ایک عادت شرم بھی پائی جاتی ہے لیکن بعض اوقات بچے کی یہی عادت اسکو اور بچوں سے پیچھے لے جاتی ہے اگر آپ کا بچہ خود کو معاشرتی طور پر ناموزوں سمجھتا ہے اور شرماتا ہے یہی شرمانہ اسکے لیے عذر بن جاتا ہے شرمیلے پن سے ہر کوئی دو چار ہوتا ہے اور اور اس سے نبردآزما بھی مگر مستقل شرماتے رہنا بچے کی شخصیت کو مروڑ کر رکھ دیتا ہے
مستقل شرمانے والا بچہ نہ صرف نئے لوگوں سے ملنے جلنے ،نئے دوست بنانے سے بھی گریز کرتا ہے بلکہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے بچے تعلیمی سرگرمیوں میں بھی پیچھے رہتے ہیں اور غیر نصابی سرگرمیون میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں بچوں کے ایک نفسیاتی معالج جن کا تعلق سنگاپور سے ہے انہون نے والدین پر زور دیا ہے ایسے بچوں کو ان کی خامی پر قابو پانے کے لیے والدین کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ والدین ان کو نظر انداز کر کے ان کی شخصیت کو مزید بگاڑ دیں سوامی ناتھن نے اسے بچوں کو اس مسئلے سے نکالنے کے لیے والدین کے لیے چھ نکاتی حل پیش کیا ہے
۔ بچے پر لفظ (شرمیلا ) چسپان نہ کریں ! بعض والدین خصوصاً والدہ ہر ملنے جلنے والے سے بچے کا تعارف اس طرح کرواتی ہے کہ ( ہمارا بچہ بڑا شرمیلا ہے ) یا سے بڑی شرم آتی ہے انہیں ان باتوں سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے میں احساص کمتری کا جزبہ پیدا ہوتا ہے
۔ جائز میل جول میں آزادی دیں ! والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں اپنے ہم عمر بچوں سے آزادانہ ملنے دیں تا کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو
۔نمایان کریں ! بچے کو آہستہ آہستہ ہمدرد کو خیر خواہ افراد کی محدود افراد کو متعارف کرائیں ان سے ملنے جلنے دیں
۔ اپنی حدود کا تعین کرنے دیں! بچے کوخود اس کٰ زاتی زندگی کی حدود مقرر کرنے دیں جب وہ کسی بات کا جواب نہ دینا چاہیے تو سوالات کرکے پریشان نہ کریں
۔ خود احترامی سکھائیں! بچے کو یہ احساس دلاتے رہے کہ لوگ اسکی شخصیت اور بات کو اہمیت دیں رہیں ہیں بڑوں کا احترام کر نا سکھائیںاورخود احترامی بھی سکھائیں
۔توقع مت رکھیں! کبھی بھی یہ توقع نہ کریں کہ آپ مقبول اور صاف گو ہیں تو آپ کا بچہ بھی یہ سب با آسانی سیکھ جائے گا آپ اسکی اس خامی کو عذر نہ بننے دیں۔