نئے صوہوں کا قیام ،عوامی حقوق

Posted on at


پاکستان کے قیام کے وقت مغربی اور مشرقی پاکستان کی آبادی  93 ملین تھی، اور انتظامی امور کے مرکز کراچی اور ڈھاکہ تھے۔  1971 میں مشرقی پاکیستان کی علیحدگی کے بعد ملک کو چار صوبوں ، یعنی سندھد، پنجاب، سرحد اور بلوچستان میں تقسیم کر دیا گیا،  اس وقت پاکستان کی آبادی 80 میلین تھی اور اس آبادی کے انتطامی امور چلانے کے لئے ان صوبوں کے مرکز پشاور، کوئٹہ، کراچی اور لاہور رکھے گئےاور اسلام آباد کو وقاقی دارولحکومت ۔ 


بدقسمتی سے یا حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کی وجہ سے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادیوں کے انتظامی امور کو سبنھالنے کے لئے نئے صوبوں کا قیام نہ ہوسکا جس کی وجہ سے  ملک کی بیشتر آبادیاں اپنے بنیادی مامعلات کے حل کرونے سے دور ہو گئی  یعنی 1972 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 70 ملین تھی اور آج ملک کی آبادی 180 ملین سے   سے ذیادہ ہو چکی ہے۔  جس کے مطابق نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے۔  ملک کے اتنے بڑے انتظامی امور کو سنبھلنا صرف چند شہروں تک رکھنا ناکافی ہے۔  ملک کے وسائل کی مساوی تقسیم اور سہولیات کو عوام کی دلیز تک پہنچنا حکومت وقت کی ذمہداری بنتی ہے۔  عوام کو روزگار،  صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات دینا بھی حکومت کی فرائض  منصبی میں آتا ہے۔ 



یہ بات بلاشک ہو شبہ کہی جا سکتی ہے ہماری عوام کی موجودہ اپتر حالات کی ایک وجہ انتطامی امور کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ جدھر مقامی سطح پر موجود سرکاری آسامیوں پر صوبوں کے مرکزی شہروں کے سفارش شدہ لوگ بھرتی کیے جائے تویقینا یہ مقامی لوگوں کے ساتھ بہت بڑی ذیادتی ہے۔  اسی طرح باقی حکومتی شعبوجات کو دیکھا جائے اسی طرح وسائل کی غیر مساوی تقسیم نظر آتی ہے۔ 



پاکستانی عوام نے نئے صوبوں کا مطالبہ انہی جوہات کو سامنے رکھ کر کیا۔  جو پاکستانی عوام کا حق ہے جو اسے دینا چاہئے۔ جن میں صوبہ ہزارہ کا مطالبہ بھی شامل ہے تاکہ مرکزی شہر پشاور کے افسران بالا اور وزراء کے چنگل سے جان چھڑائی جائے جو گزاشتہ کئی دائیوں سے باقی ماندہ صوبے کے لوگوں کے حقوق غاصب کئے ہوئے ہیں۔



اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا جو حقوق حکومت وقت کو آبادی اور انتظامی امور کے مد نظر رکھ کر نئے صوبے اور اصلاحات کرنی چاہئے تھیں ان کے لئے عوام سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق مانگ رہے ہیں اور قیمتی جانوں کے نزرانے دیں رہے ہیں۔  گویا یہ ان حکمرانوں کے پیروکار ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے تھے۔ جو عوامی خواہشات کے برعکس اور ان کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر کے ملک کے اندر خون خرابہ، انارکی، ظلم کی فضاء پیدا کر ریں ہیں جو ملک اور قوم دونوں کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔  اور ہم بجا طور پر ملک میں کہی  علیحدگی تنظیموں اور کہی نظامت کی تبدیلی کے نعروں اور کہی بازور بازو  کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں اور ہمارے افسران ، خفیہ ایجنسیاں اور حکمران سر پکڑ کر کبھی  آپریشن کا سوجتے ہیں اور کبھی باغی گروپوں سے بات چیت کا۔ اور یہ سب کچھ ملک و قوم کے لئے کسی المیے سے کم نہیں۔




160