ویسے تو کہنے کو ہم اکیسویں صدی میں موجود ہے اور ہم نے ٢٠ اڈوں کا سفرطہ کیا ہے اور آج ہم نے ترقی کے مراحل طہ چاند پر بھی قدم رکھ دیے ہے اور سمندروں کی گہرایوں کو بھی چن مارا ہے آج انسان کو دنیا کی ہر چیز پر قدرت حاصل ہے. آج انسان یہ کہتا پھر رہا ہے کہ وہ اس دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے آج وہ جانوروں کو حقوق تو دے رہا ہے پر اپنی ہی ہمسفر کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کر رہا ہے.
کہنے کو تو انسان آج کائینات کا بادشاہ ہے پر اس کو اس دنیا میں لانے والی عورت آج بھی اسی طرح سسک رہی ہے جسے آج سے چودہ سال پہلے کہنے کو تو آج وہ جانوروں کو بھی ان کے حقوق دے رہا ہے انھیں بھی اپنے گھروں میں پیار سے رکھ رہا ہے پر اپنی ہی بیٹی اور بیوی کو اس نے جانوروں کی حثیت سے اوپر نہیں دیکھا آج بھی حوا کی نام نہاد بیٹی عزت کے نام پر قتل ہوتی ہے. آج بھی اسے اپنے ماں باپ کی عزت کے لئے اپنی خواہشوں کی بلی دینی پڑتی ہے
کہنے کو آج کی عورت کو پڑھایا تو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کی عورت آزاد ہے پر کیا آج کی عورت کو وہ سب حقوق ملے جو اسلام نے ایک عورت کو دیے ہے؟؟؟ میں اکثر کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ عورت کے ہاتھ میں دکھ کی لکیر کہا ہے اور اللہ نے صرف عورت کے ہی ہاتھ میں یہ لکیر کیوں بنایی؟؟ آخر ایک مرد کو کیوں نہیں جتلایا کہ اگر وہ ہی ظلم جو وہ سماج عزت کے نام پر عورت پر کرتا ہے اگر وہ ہی اس کے ساتھ ہو تو وہ کیسا محسوس کرے گا ؟؟
آج کل سب کہتے ہے کہ آج کی عورت آزاد ہے وہ جو چاہے کر سکتی ہے پر پھر کیوں اس کا گلہ بے تکی رسومات کے زریعے گھونٹا جاتا ہے. کبھی اسے ستی کر دیا جاتا ہے تو کبھی قرآن سے شادی (حق بخشش ) کروا کر اسے ہمشہ کے لئے قید کر دیا جاتا ہے. اور کبھی اس کے گلے میں زبردستی شادی کا طوق پہنا دیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو پھر یا تو ساری زندگی باتیں طعنے دیے جاتے ہیں یا پھر اسے منوں مٹی کے نیچے بھج دیا جاتا ہے
کیا یہ ہے آج کی آزاد عورت جس کو اپنی ہی خواہشات کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے. کہنے کو تو ہم سب ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں پر افسوس کہ آج بھی عورت محکوم ہی ہے کہنے کو تو چاند پر قدم رکھ دیا پر آج بھی ایک عورت ظلم ستم کی داستان بنی ہوئی ہے