(عورتوں کی تعلیم (تعلیمِ نسواں

Posted on at



ایک وقت ایسا بھی تھا جب عورتوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ جلا دیا جاتا۔ انہیں ان کے حق سے محروم رکھا جاتا، جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اسے معاشرے کے سامنے زلت اور رسوائی کا شکار ہونا پڑھتا۔ عورتوں کے ساتھ بہت بری طرح پیش آیا جاتا۔ انہیں صرف دوسروں کی حوس اور زیادتی کا شکار بننا پڑھتا یا پھر گھروں میں بند رہ کر زندگی گزارنی پڑھتی۔

                         
پاکستان میں بھی ایک وقت ایسا تھا جب عورتوں پہ ظلم ڈھایا جاتا انہیں گھر کی نہوست سمجھا جاتا تھا انہیں تعلیم دینا ایک گالی کی اہمیت رکھتی تھی اور اسی سوچ کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے دور رکھا جاتا تھا۔اور با مشکل کچھ لوگ اتنا پڑھانے پہ رضامند ہو جاتے کہ جس سے وہ نماز اور قرآن پاک پڑھ سکیں۔ اسکے علاوہ لڑکیوں کےلئے دنیاوی تعلیم بہت بری سمجھی اور مانی جاتی۔
لڑکیوں کے لئے دنیاوی تعلیم بُری مانی جاتی تھی اور نہ ہی لڑکیوں کا کوئی سکول تھا اسکے برعکس لڑکوں کے لئے اس کی اہمیت اتنی ہی زیادہ تھی کیونکہ انکے خیال میں لڑکیاں تو صرف گھروں تک محدود رہنی ہیں جبکہ لڑکوں نے تو نوکریاں کرنی ہیں اسی وجہ سے لڑکوں کو بڑے زوق و شوق کے ساتھ سکول بھیجا جاتا اور اسی گھر میں بے چاری اور بے بس لڑکی کو جانوروں کی طرح ہانکا جاتا اور اسکے ہاتھ میں جھاڑو تھما دیا جاتا۔

                        
آج ہمارا ملک ہر قدرتی وسائل ہونے کے باوجود کئی ملکوں سے پیچھے ہے۔ جسکی وجہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی ہے اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کا لٹریسی ریٹ بہت کم ہے تو پھر کیسے ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے؟

                     
مرد حضروت! ڈاکٹر، انجینئرز، وکیل، سیاستدان اور جنرل کہلا سکتے ہیں تو ایک عورت کیوں نہیں؟ کیوں کہ ہماری سوچ اس حد تک محدود ہی کہ عورت کی جگہ صرف گھر کی چاردیواری کہ اندر ہے اور اس نے مستقبل میں ماں، اور بیوی بن کہ صرف اپنے بچوں اور شوہر کی خدمت ہے کرنی ہے۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ جیسے ترقی پزیر ملک میں بھی ہے وہاں بھی تعلیمِ نسواں کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کی عورت گھر میں پڑھا ہوا ایک نمونہ ہے جسکا کام صرف گھر سنبھالنا ہے۔

              
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب کچھ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ عورتوں کی تعلیم ان کے ہی نہیں بلکہ پورے خاندان، معاشرے، اور پورے ملک کی کامیابی ہے۔ اور ایک پڑھی لکھی عورت ہی ایک اچھی ماں، بیوی، بہن اور بیٹی بن سکتی ہے۔ اور ان کی تعلیم کی بنیاد پر ہی ملک رات دُگنی اور دن چُگنی طرقی کر سکتا ہے

              

 

اسی سوچ کو مزید لوگوں تک پہنچانے کیلئے مختلف ادارے کوشاں ہیں کچھ تو حکومت کی طرف سے ہیں اور کچھ پرائیویٹ ادارے ہیں جو تعلیم نسواں کے حصول کیلئے بہت محنت کر رہے ہیں۔

             

امید ہے کہ بہت جلد ہمارے ملک سے تو کیا پوری دنیا سے سوچِ جہالت ختم ہو جائے گی۔

 



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160