رزق حلال یا کسب حلال

Posted on at


بحض مفکرین کا کہنا ہے کہ چار قسم کے آدمی ہیں جن کی بدولت دین اور دنیا قائم ہے۔


 علماء


امیر


غازی


رزق حلال کمانے اور کھانے والے




اس لئے کہ عا لم لوگ دراصل پیغمبروں کے وارث ہیں۔ امیر کی پوزیشن ایک گڑھے کی مانند ہے جو خدا کے بندوں کو چراتے اور حفاظت کرتے ہیں۔ جیسے ایک گڈریا اپنے ریوڑوں کی نگہداشت ، دیکھ بھال اور نگرانی کرتا ہے اور اس طرح لوگ ان کے نیک عادات و خصائل کے پیرو کار ہو تےہیں۔ اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔ غازی زمین پر خدا کا لشکر ہے جو کافروں کی ہر طرح بیخ کنی اور قلع قمع کرتے ہیں۔ اس طرح رزق حلال کمانے اور کھانے والے اللہ کے امانت دار ہیں اور لوگوں کی مصلحت اور دنیا کی آبادی انہی سے ہے۔


اگر علماء ہی علم کو ترک کردیں اور دنیاوی لہو و لعب اور کھیل کود میں مشغول ہو جائیں اور لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کریں تو اس صورت میں خدا کے بندے کس کی پیروی اور تقلید کریں؟ اگرچراوہے ہی بھیٹریے ہو جائیں تو بھیڑ بکریوں کی نگرانی و حفاظت کون کرے۔ اگر غازی ہی اپنے فرائض منصبی سے کو تاہی اور غفلت برتنے لگیں اور اسے ترک کردیں تو دشمن پر کس طرح فتح و کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح اگر رزق حلال کمانے اور کھانے والے خیانت کرنے لگیں تو ایسی صورت میں لوگوں کو ان سے اعتبار اور یقین اتھ جائے گا اور رزق حلال کمانہیں سکیں گے اور اس میں خلل واقع ہوگادنیا کے تمام مذہب کے مقابلے میں اسلام ایک حقیقی ، متبرک اور اعلیٰ وارفع مقام کا حامل مذہب ہے۔ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں ہماری ترقی اور فلاح کا راز مضمر ہے۔ اگر مسلمان سچے اور صدق دل سے اس پر عمل پیرا ہوں تو ایسی صورت میں دونوں جہاں کی نعمتیں ان کے قدموں میں ہوں گی۔ اس مذہب کے پرستاروں کو جتنا سکون قلب میسر ہے اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔


ارشادات نبوی ﷺ کے علاوہ حکم ربانی بی یہی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اور خالص جائز طور طریقہ سے اپنی روزی کماؤ اور اس طرح رزق حلال سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالو اور اپنی دیگر ضروریات زندگی پوری کرو۔ وہ اس لئے کہ رزق حلال میں لاتعداد فوائد مضمر ہیں۔


حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ۔



رزق حلال کمانا ہر مسلمان پر لازم ہے اور سب سے اعلیٰ افضل اور با برکت روزی وہ ہے جو محنت و مشقت کر کے ہاتھ سے کمائی جائے۔ دراصل ہاتھ سے روزی کمانے والے کو اللہ بھی دوست رکھتا ہے۔


ایک دفعہ کا ذکر ہے سرور کائنات ﷺ ایک مقام پر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک خوش واضع نوجوان بڑی تیزی اور سرعت کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے سے گزرا آپ ﷺ نے اس کے جذبہ ذوق و شوق کو دیکھ کر فرمایا کہ اگر یہ اس مقصد کے حصول کے لئے جا رہا ہے کہ محنت و مشقت کر کے اپنے بیوی بچوں کی پرورش کرے اور اپنی دیگر ضروریات زندگی پورے کرے تو یہ بھی عبادت ہے۔


رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اس امر کی پروا نہیں کرتا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس امر کی قطعی پروا نہیں کرتے کہ قیامت کے روز اسے دوزخ میں کہاں لے جا کربھینکنا ہے۔


حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دراصل عبادت کے دس درجے ہیں لیکن اس میں سے نو حصے رزق حلال کے ہیں جو بھی رزق حلال کی تلاش و جستجو میں تھکا ماندہ اور نڈھال رات کو گھر واپس آتا ہے وہ بخشا ہوا ہے اور صبح سویرے جب وہ نیند سے بیدار ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے از حد خوش ہوتا ہے۔ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ حلال روزی کی تلاش فرض عبادت کے بعد دوسرا فرض ہے۔


انسان کو روزی کمانے کا وہ طریقے اپنانے کی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح جائز قرار دیا ہو، ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت اور سرمایہ معاشرے میں فتنہ فساد برپا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ جھوٹ ، دغا ، مکرو فریب اور ظلم و ستم کرکے حاصل کیا ہو رزق ، رزق حلال نہیں بلکہ رزق حرام میں داخل ہے۔ ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں۔ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔


رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ بہترین روزی وہ ہے جو ہاتھ سے کمائی جائے اور فریضہ عبادت کے بعد اہم فریضہ حلال روزی پیدا کرنا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جو کوئی رزق حرام کھانا ہے اگر وہ بکثرت صدقہ اور قربانی بھی دے تو وہ کسی بھی طرح خدا کے حضور قبول نہیں ہوتی۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160