معصوم کلیاں جنہوں نے ابھی کھلنا تھا

Posted on at


پاکستان میں مزدوری کرنے والے چھوٹے بچوں کی تعداد بہت عام ہے ۔ ہمارے میں ملک رواج ہے کہ یھاں لوگ سستے میں اچھا کام کرنے کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بچوں سے مزدوری کرواتے ہیں ۔ اس کی بہت سی وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں والدین کا ان پڑھ ہونا، ملک میں تعلیم کا مہنگا ہونا، آبادی کا زیادہ ہونا، روزبروز مہنگائی کا بڑھتے جانا ۔



پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے ۔ کسی بھی اچھی چیز کو ترجیح دینا ایسے جیسے خود کے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے ۔ ان میں ایک چیز ہے تعلیم کو اچھی اور بہتر سوچنا اور ہمارے سیاست دان تعلیم عام کرو کا نعرہ تو لگاتے ہیں پر اسی تعلیم کو ہی ہر قدم ایسی ذلت اور کمی کا نشان بنایا جاتا ہے ۔ تعلیم خود بھی کہیں نہ کہیں شرمندہ ہوتی ہے ۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو لاشعور بنا دیتی ہے اور زندگی کے کچھ ایسے فیصلے اچھے اور بہتر سوچ دیتی ہے ۔ جس میں خود انسان کا فائدہ ہوتا ہے ۔



والدین کا ان پڑھ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اس مہنگے دور میں بچوں کو پیٹ بھرنے کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ اور ان کی یہی سوچ ہوتی ہے ۔ اس مہنگی تعلیم سے بہتر ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی دے کہ کم از کم بچوں کو زندہ تو رکھا جاۓ ۔



لوگوں کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں کو بھی بچوں سے اس مہنگے دور میں مزدوری کرواتے ہیں ۔ اور پیٹ پالنے کا ہی درس دیتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ اور زیادہ آبادی کی وجہ سے پڑھے لکھے بھی کیلئے بھی نوکریوں کی کمی ہوتی ہے ۔ اور آجکل کا دور لینے دینے کو زیادہ اہمیت دیتاہے ۔ اور سفارش اور رشوت کی وجہ سے کچھ لوگ آگے نہیں جا سکتے اور وہ بھی اپنے بچوں کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں ۔


حکومت کو چاہیے کہ غریب بچوں کو مفت تعلیم دلاۓ تا کہ وہ بھی اچھے طریقے سے زندگی گزار سکیں ۔


آبادی میں اضافے کو روکا جاۓ ۔


لوگوں کے دلوں میں حکومت کیلئے نرم گوشہ پیدا کیا جاۓ تا کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں ۔


امیر اور غریب کا فرق ختم کر دیا جاۓ صرف حقدار کو اسکا حق دیا جاۓ


تعلیم کو سستا اور بہتر بناۓ ۔


بیروزگاری کو ختم کرے ۔


والدین کی پالیسی پیٹ بھرو تعلیم کو چھوڑو کو ختم کر کے تعلیم حاصل کرو کچھ بنو کی پالیسی میں تبدیل کر دیا جاۓ ۔


تا کہ وہ سب کلیاں جن کی عمریں ابھی اتن



ی ہوتی ہے جتنی کہ ایک کلی کے باغ میں کھلنے کی ہوتی ہے ۔ انہیں کھلنے سے پہلے ہی نہ توڑا جاۓ اور نہ اتنی سختی برتی جاۓ کہ وہ مرجھا جائیں ۔ 



About the author

160