ایک ادھورا خواب

Posted on at


ٹرین پر سفر کرنے کا شوق ہر کسی کا نہیں ہوتا۔تاہم جنھیں ہوتا ہے انھیں کافی ہوتا ہے۔بچپن میں مھجے بھی تھوڑا بہت شوق تھا۔ اور میرا یہ شوق بہت ہی جلدی تکمیل پہنچا۔دراصل میں ہری پور کے ایک گاوٴں درویش کارہنے والا ہوں اور ریلوے اسٹیشن میرے گاوٴں سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقح ہے۔

اب جبکہ میں ٹرین کے کافی سفر کر چکا ہوں اعر تقربیاً گزشتہ ۸ یا ١۰ سال سے کر رہا ہوں تو کافی دلچسپواقعات ریلوے کے سفر کے بارے میں میرے پاس آب بیتی کے طور پر موجود ہیں جا کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ شیرٴ کرنا چاہوں گا۔

ہوتا کچھ یوں ھے کہ اپنے ایک عزیز کے ہاں جانے کے لیے میں عموماً ٹریں کا سفر اختیار کرتا ہوں۔  ٹرین تک پہنچے کے لیے پیدل چل کر جایا کرتا تھا۔ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی۔زیادہ طر میں اسٹیشن پر ٹرین کی آمد سے پہلے پہنچ جایا کرتا تھا تاہم کافی بار میں راستے میں ہی یوتا تو ٹرین آجایا کرتی تھی۔اور تب اس وقت میں اسٹیشن کی طرف بھاگنے لگتا۔

جب ٹرین پلیٹ فام پر پہنچی تو پورا پلیٹ فام میں تھرتھلی سی ہونے لگ گی۔اور مسافر ٹرین سے اترنے لگتے ہیں اور کچھ لوگ تو اتنی اتولے ہوتے ہیں کے ابھی پہلے مسافر اترے نہیں کے کوگ اپنے بچوں کو ٹھوسنے لگتے ہیں۔ہی منظر کافی دلچسپ محسوس یوتا ہیں۔خیر یہ سلسلہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔اور پھر میں ٹرین میں چھڑا اور کھڑکی کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کھڑکی کا شیشہ اوپر کیا اور اندر باہر کی مخلوق دیکھتا رہا۔ اچانک ایک زور دار سیٹی کی آواز میرے کانوں میں پڑی اور ریل گاڑی خراما خراما چلنا شروع ہوتی ہے۔اپنے پیاروں کو الوداع کرنے والے اور رخصت ہونے والے آنکھوں میں آنسو لیے اور حسرت سے ایک دوسروں کو دیکھتے ہیں۔اور پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر نہیں ہاتھ ہلا کر انہیں رخصت کرتے ہیں۔پلیٹ فارم ختم ہوتے ہی ٹرین کی رفتار دیازہ ہوجاتی ہیں۔

اور لوگ اپنے پیاروں سے بچھر جانے کے غم میں آہیں بھر رہے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوں ابھی بھی جاری ہوتے ہیں۔تاہم انکے چھرے سے انکے اپنوں کا غم صاف نظر آرہا تھا۔اور یہ معاملہ بھی تھوڑا دیر میں ٹھنڑا ہوگیا۔اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگے اور میں بھی خاموشی سے سفر کا مزا لینے لگا۔



About the author

160