آج کل بچوں کو سکول میں داخل کرواتے ہوۓ والدین یہ بھی جائزہ لیتے ہیں کہ سکول کا فرنیچر کیسا ہے۔ اچھا ہے،برا ہے یا بس واجبی سا۔ سکولوں کی فیسیں بھی فرنیچر پر ہی منحصر ہوتی ہیں۔ کہ مہنگے سکولوں میں فرنیچر بھی اسی حساب سے مہنگا ہوتا ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت اکثر سکولوں میں تو فرنیچر ہوتا ہی نہیں تھا۔ سب بچے اپنے اپنے گھر سے اپنا فرنیچر روز لے کر آتے اور واپس لے جاتے تھے۔ کسی بچے کے فرنیچر پر کسی دوسرے بچے کو بیٹھنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔
یہ فرنیچر بھی عام طور پر ایک بوری ہوتی تھی۔ آج کے بہت سے بچے تو شائد تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے بزرگ سکول میں بوری پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ عین ممکن ہے کہ کسی کو یہ بات سمجھ نہ آۓ کہ بوری کیا ہوتی ہے۔اور اس پر بیٹھ کر کیسے پڑھا جاتا تھا۔ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد آج ہمارے ہاں تو شائد ایسا نہیں ہوتا مگر چین میں ایسا ہوتا ہے۔ وہاں اکثر سکولوں میں بچے اپنا ڈیسک خود لاتے ہیں۔ چائنا میں بچے ہر روز ساڑھے آٹھ سے بارہ گھنٹے تک سکول میں گزارتے ہیں۔
ہمارے ہاں بچے کبھی چھ گھنٹے سے زیادہ سکول میں گزارتے ہیں اور ہم چائنا اور دیگر ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ممالک سے مقابلے کی بات کرتے ہیں۔