ھاۓ رے ایم بی بی ایس(پارٹ ۳)

Posted on at


اس ظالم ایم بی بی ایس نے ہمیں حب الوطنی سے بھی بیگانہ کر دیا ہے۔ جب صرف ایک دن اور ۵۰ چیپٹر ہوتے ہیں۔ تو دل طرح طرح کی دعائیں کرتا ہے۔ کہ خدایا کوئی دھماکہ ہو جاۓ،کوئی کرفیو کوئی ایمرجنسی لگ جاۓ۔ بہر حال یہ خیالات جلد ہی خام ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک دن تو کیا ایک عشرہ بھی زیادہ ہو گیا تو پہلے دن کا پڑھا ہوا دسویں دن ضرور بھول جاۓ گا۔ ٹیشن گھٹے گی نہیں بلکہ اور زیادہ ہو جاۓ گی۔

ڈاکٹر تو ہوتے ہی شکی مزاج ہیں۔ مریض اگر بتاۓ مجھے سینے میں درد ہے تو اسکا شک انجائنہ میں بدل جاتا ہے۔ شروع میں جب اچھے بچوں کی طرح پڑھائی کے لیئے بیٹتھے ہیں تو یونیورسٹی ٹاپ کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ مگر پھر اپنی اوقات یاد آتی ہے۔ اور صرف کالج ٹاپ کرنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے دن قریب آتے ہیں اور اپنی حالت زار کا اندازہ ہوتا ہے تو محض پاس ہونے کے لیئے روتے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ اور پیپر کی صبح تک یہ ارادہ سکڑ کر فقط اچھے نمبروں سے فیل ہونے تک محدود ہو جاتا ہے۔ تا کہ گریس مارکس یا ری چیکنگ میں نکل جائیں۔ جوں جوں پیپر کی رات قریب آتی ہے ماحول کی حولناکی شدید تر ہوتی جاتی ہے۔

طرح طرح کے وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے سر پکڑا ہوتا ہے تو کسی نے پیٹ۔کوئی نیند کی گولیاں کھاتا تو کوئی نیند بھگانے کی۔ چرند پرند ہر شے پریشان معلوم ہوتی ہے۔ پھر یہ احساس کہ ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے تو بڑی تسلی دیتا ہے۔ ” لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے”

افسوس ہوتا ہے کہ:

افسوس ہمارے کھیلنے کودنے کے دن ان بھاری بھر کم کتابوں کی نذر ہو جاتے ہیں



About the author

160