قائد اعظم کی پکار ۔۔۔۔ اگر کوئی سنتے تو

Posted on at


قائد اعظم کی پکار ۔۔۔۔ اگر کوئی سنتے تو

قائد اعظم محمد علی جناح کون تھے۔ یہ کس شخصیت کا نام ھے۔ اس نے ایسا کون سا کارنامہ کیا کہ آج تک اسے یاد کیا جاتا ھے۔ میرے خیال سے ا یسا کوئی بھی شخص یا کوئی بچہ جو سمجھ بوجھ رکتھا ھو۔ اسے ان سوالوں کے جواب پتہ ھوں گے۔ اس لئے مجھے ان سوالوں پر لمبی چوڑی بحث نہیں کرنی ھے۔ کیوں کہ جس شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہا ھوں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ھے۔ لیکن آج میں جس موضوع پر لکھنے جا رہا ھوں میرے خیال سے وہ بہت شرمناک ھے۔ خاص کر کے ھم سب پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ ۔ کیوں کہ ھم کچھ لوگوں کی وجہ سے ہم بدنام ھو جاتے ھیں۔ کچھ دن پہلے ِسر عام نیوز چینل نے انکشاف کیا تھا۔ قائد اعظم کے مزار کی وہ جگہ جہاں ان کی اصل آرام گاہ ھے۔ یعنی مزار کے نیچے والے حصے میں جہاں انہیں دفن کیا گیا ھے۔ وہ کمرے کراے پر دئیے جاتے ھیں۔ صرف لڑکے اور لڑکیوں کو۔ اب ھم کسی جوان لڑکے اور لڑکی کو کسی سبز کمرے میں چھوڑ دیں گے تو کیا ھوگا۔ اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ھے۔

تیسرا عام نیوز چینل کہ لوگوں نے کچھ لڑکے اور لڑکیوں کو جان بوجھ کر بھیجا۔ تا کہ ان کے رنگے ہاتھوں اور ثبوتوںکے ساتھ پکڑا جائے ۔ اور وہی ھوا جن کا انہوں نے انکشاف کیا تھا۔ ان لڑکوں اور لڑکیوں کو کمرے کرائے کیلئے دیئے گئے۔ اور اسی لمحے وہاں نیوز چینل والے بھی پہنچ گئے۔

اور ان لوگوں کو ثبوتوں سمیت پکڑا۔ ایک طرح سے تو ان نیوز والوں نے اچھائی کا کام ہی کیا لیکن اس طرح سب کچھ لائیو کا سٹ کرنے سے ہمارے ملک میں ہماری سرزمین اور ہم سب کی بہت بدنامی ہوئی۔ نیوز چینل والوں کو تو بس کوئی خبر چاہیئے ہوتی ہے پھیلانے کیلئے۔ اچھا لینے کیلئے ۔ افسوس صدافسوس ہمارے اندر کا ضمیر بالکل رہ چکا ہے ۔ چند پیسوں کی خاطر ہم نے کیا کچھ کرنا سیکھ لیا ہے ۔ اسی کی تصویر کے کاٖغذوں پر اسی کی جگہ کو کرائے پر اور فحاشی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد تو قائداعظم پکارتے ہیں۔ان کی پکار سننے کیلئے کان چاہیئں آنکھیں چاہیں دیکھنے کیلئے ۔ تاکہ ان کیپکارکا ہم جواب دے سکے ۔

 

 

                                                                                                                                                                                                                                  



About the author

160