بے حسی کی داستان پارٹ ٢

Posted on at


 

[part 2]

گڑیا بولتی چلی جا رہی تھی .اور کرن کچھ بول نہی پا رہی تھی. بس آنسو تہے جو  بہت تسلسل سے بہے جا رہے تہے ." بیٹا تمھرے پاپا یہاں....سڑک پے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ...اسے سرپرائز ہی رهنے دو ...ڈسکلوز نہ ہی تو بہتر ہے " یہ چند جملے کہنے  کی ہمت ہی تو  نہی ہو  پا رہی تھی کرن سے 

کسی طرح خود کو سمبھال کر کرن نے  تیزی سے فون بند کیا اور دیوانوں کی طرح سڑک پے بھاگنے لگی . اسکے قدم لڑکھڑا رہے تہے ، ہاتھ  خون سے رنگین تہے ، ھونٹ کسی صحرا کی طرح خشک ، آنکھیں انگاروں کی طرح سرخ ،بال بری طرح سے الجھے ہوے ، اور چہرہ مکمل طور پر افسردہ .

وہ ایک ہی جملہ دہراتی جا رہی تھی "خدا کے  لیے اسکی مدد کریں ،پلیز گاڑی  روکیں ،نہی تو وہ  مر جائے گا "وو ٹریفک  سے بھری سڑک پر  ہر گاڑی کے سامنے یہی فریاد کر رہی تھی .

اب کی بار جس گاڑی کو روکنا چاہا ،اس میں سے ایک شخص یک دم اترا ،کرن اس سے پہلے کے  روداد سناتی ،وہ پھٹ پڑا " ا ے لڑکی ! مانگنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کیا ؟ تم جسیے لوگوں کو تو خیر شرم ویسے بھی نہی آتی ،تو اپن ٹائم ہی ضائع کرنے والی بات ہے ، چلو دفع ہو ! احساس ہی نہی تم جاہل لوگوں کو کسی کا " یہ کہتے ہی وہ  گاڑی میں بیٹھا ،اور چلا گیا .کرن کی آنکھوں سے ایک معصوم سا آنسو چھلکا اور ساتھ ہی ہلکی سی مسکراہٹ چرےپر  نمودار ہوی،اور اس نے آہستگی سے "احساس" کہا اور ایک آہ بھری .

کرن نے آسمان کی طرف دیکھا  اور  انتہائی بے بسی سے کہا "تو تومیری  مدد کر،تیری دنیا تو کچھ سننے تک تو تیار نہی"  خدا کا نام لے کر کرن نے ایک بار پھر ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا ،اسد نے ایک دم  بریک لگائی .اور کرن ک پاس آ کر انتہائی ہمدردانہ انداز میں وجہ پوچھی. کرن چونکہ اپنے پورے ہوش و حواس میں نہی تھی ،اس لیے سہی سے سمجھا نہی پا رہی تھی . اسد کو مسلے کی نویت کا کچھ اندازہ ہو گیا تھا لیہذا اس نے بہت شفقت سے کہا "آپ خود کو سمبھالیں پلیز اور مجھے بتایں کے ہوا کیا ہے ؟ وہ... وہ...ایکسیڈ نٹ ....وہاں ....کرن بول نہی پا رہا تھی .وہ ہاتھ کے اشارے سے سمجھا نے  کی کوشش کر رہی تھی .رلیکسس، رلیکسس! اسد نے آہستگی سے کہا ،جیسے وہ سب سمجھ رہا ہو . کتنی عجیب سی بات ہے نا کوئی کہنے پر بھی نہی سمجھے اور کوئی ان کہے بھی سمجھ گیا ،کرن نے جیسے اپنے آپ سے کہا

 اب تک موسم بالکل تھم چکا تھا تھا.آسمان بھی گریہ زاری کر کر کے شاید تھک چکا تھا .خوفناک قسم کی سکونت چھائی ہوئی  تھی .کرن کو شدید قسم کی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی .کسی طرح اسد اور کرن تماشائیوں  کی بہت بڑی بھیڑ کو چیرتے ہوۓ  جاہ  حادثہ پے پنچہے .اسد کے قدم لڑکھراے اور  ہاتھ سے  گاڑی کی چابیاں گریں .کرن نے ایک زور دار چیخ ماری .اب ان کے سامنے کوئی زخمی ،تڑپتا ، سسکتا شخص موجود نہی تھا ،بس ایک پر سکون لاش پڑی تھی .جس کے چہرے پر اک کہانی تھی جو کے ادھوری رہ گئی تھی . اک سوال  تھا جو جواب طلب تھا . اک شکایت  تھی جو اب دور نہی ہو سکتی تھی . االزام تھا جو برحق تھا . اک  سزا تھی جو سب کے نام تھی . اک گلہ تھا جو سب کی ؛ بے بسی  " سے تھا .

 

سب کچھ وہیں تھا،نہی تہے تو فقط ہم

!رک کر بھی کیا کرتے کے جانا تو تھا نا   


TAGS:


About the author

160