کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مرکزی حکومت نے ڈھیروں فلاحی اور عام بہبود کے پروگراموں کو اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اور تمام وہ صنعتی کام بھی خود ہی کر رہی ہیں جو نجی شعبہ کے لوگ کر سکتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ وہ تمام ادارے جو پانی اور بجلی کی فراہمی وغیرہ جیسے کاموں میں لگے ہوۓ تھے۔ انہیں ” نجکاری ” کے دیو نے ہڑپ کر لیا اور ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے بڑی بڑی بولیاں دے کر انہیں ذاتی تحویل میں لے لیا۔ پانی اور بجلی کی قیمت بڑھنے لگی شفا خانوں میں علاج مہنگا ہو گیا۔ اور معاشی نا ہمواری بڑھنے لگی۔
اسی زمانہ میں برطانیہ میں مسز تھیچر اقتدار میں آئیں اور انہوں نے انگلستان کے فلاحی اداروں کو چلانے کے لیئے اخراجات میں کمی کرنے کا رواج اپنایا۔ عوام کی معاشی بہتری کا نظریہ حکومت کے اقتصادی استحکام کی خاطر پس پشت ڈال دیا گیا۔ مسز تھیچر کی مثال نے امریکی حکومت کی نجی شعبہ کو آگے لانے کی نئی حکومت عملی کو جواز بخشا اور پھر بات آزاد معیشت کی ہونے لگی۔ عوام کو قربانی دے کر حکومت کی مالی زمہ داریوں کو کم کرنا چاہیئے تا کہ ملک ترقی کرتا رہے،عسکری طاقت بڑھتی رہے،نجی شعبہ میں چلنے والے کارخانے تباہ کن ہتھیار بنانے میں لگے رہیں۔ ملکی سلامتی کے لیئے پولیس اور نیم فوجی دستے زیادہ سے زیادہ تیار رکھے جائیں۔ چناچہ حکومت کے اخراجات کم تو نہیں ہوۓ بلکہ بڑھتے ہی گئے۔
کم صرف سماجی بہبود پر اٹھنے والی رقم چناچہ ۱۹۹۶ میں تو حالت یہاں تک جا پہنچی کہ امریکا مین گویا فلاحی مملکت کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ ۷۵ ارب ڈالر کی سالانہ رقم جو فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ مگر دوسری طرف آزاد معیشت کے فروغ کے سلسلہ میں حکومت کی فیاضی کا یہ عالم ہے کہ وفاقی حکومت کے قائم کردہ ایکسپورٹ امپورٹ بینک نے ۱۰۰ ارب ڈالر کی کثیر رقم بری بڑی نجی کارپوریشنز کو دنیا میں اپنی حیثیت کو استحکام پہنچانے کے لیئے بطور امداد بخش دی۔ یہ صریحاً نجی کارپوریشنوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے نچلی سطح کے لوگوں کے فلاح و بہبود پر خرچ کی جانے والی رقم کو یکسر بند کر کے یا بے حد کم کر کے۔
دوسرا رخ آبادی کے ان بد قسمت لوگوں کا غمزدہ چہرہ دکھاتا ہے جو دولت کی ریل پیل کے باوجود اپنی ضروریات زندگی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف امریکا میں نو وارد کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ امریکا میں نسل بعد نسل رہتے آ رہے ہیں۔