پاکستان میں مغربی تہذیب

Posted on at


آج کل کے دور میں میڈیا اور دیگر ذرائع نشر و اشاعت کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں مغربی تہذیب و ثقافت کی چھاپ دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی ہے .اور مغربی ثقافت نے کسی سرطان کی طرح ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا ہے کے اب اس سے چھٹکارا محال نظر آتا ہے .مختلف ٹی وی  چینلز پر دکھاۓ جانے والے پروگرامز میں موجود خواتین مغربی ملبوسات زیب تن کئے الٹی سیدھی انگریزی جھاڑتی ہوئ نظر آتی ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کے ٹی وی پر جو اشتہارات نشر کئے جاتے ہیں ان میں کچھ ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں جن کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوۓ والدین کے چہرے یقینا شرم سے سرخ ہو جایں مگر چند ٹکوں کے بدلے ہمارا میڈیا یہ سب دکھانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا .پاکستان میں شائع ہونے والے اکثر رسائل و جرائد میں مغربی ثقافت سے جڑی کہانیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے .ٹی وی شوز میں ایسے موضوعات کو سر عام ڈسکس کیا جاتا ہے کے کوئی شریف گھرانہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سب دیکھنا تو دور سن بھی نہیں سکتا .یہ سب ہماری اسلامی اقدار اور روایات کے بلکل خلاف ہے 

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں ہر روز سینکڑوں دفعہ اٹھتا ہے مگر وہ خود کو بھی اس کا جواب دینے سے قاصر پاتا ہے .ہم سب ماڈرن کہلانے کے شوق میں مغربی تہذیب کے اندھے کویں  میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کے باہر آنا بھی چاہیں تو نہیں آ سکتے .ہر ملک کی اپنی ایک مادری زبان ہوتی ہے جو نہ صرف اسکی شناخت بلکہ اس ملک کی ثقافت کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے .پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر مشاہدے میں یہ آتا ہے کہ اکثریت پاکستانی عوام اپنی قومی زبان بولنے میں شرم محسوس کرتی ہے.بچوں کی انگریزی سکھانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے اور جب وہ منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی کے چند الفاظ بولنے میں قادر ہو جائیں تو ماں باپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے .ہم انگریزوں کی زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر انگریزوں کے  وہ طور طریقے نہیں اپناتے جن کے بدولت وہ آج ساری دنیا پر راج کر رہے ہیں ایسی بد نصیبی پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں 

مگر ان سب کے علاوہ ایک اور بیماری جو ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے پروان چڑھ چکی ہے وہ گرل فرینڈ اور بواے فرینڈ کلچر ہے .فیشن کے مارے اس ملک میں اب گرل فرینڈ یا بواے فرینڈ بنانا معیوب نہیں رہا بلکہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے .کنواروں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ لوگ بھی اس ٹرینڈ کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں .کالجز اور یونیورسٹیز میں اگر آپ گرل فرینڈ یا بواے فرینڈ کی نعمت سے محروم ہیں تو آپ کو پینڈو کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور پینڈو لفظ ہمارے یہاں ایسی گالی تصور کیا جاتا ہے کے ہمارا بس چلے تو خود کو پینڈو کہنے والے کو قتل کر دیں .کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا کہنا ہے کے ١٩٩٠ کے اوائل میں ڈش ٹی وی اور ١٩٩٠ کے اواخر میں موبائل فون نے گرل فرینڈ اور بواے فرینڈ کلچر کی مشہوری میں اہم کردار ادا کیا ہے اور نہ صرف کنوارے بلکہ شادی شدہ لوگ بھی فرینڈز بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں شادیوں کا خاتمہ طلاق کی شکل میں ہوتا ہے 

 

اس کلچر کی ترویج میں ٹیلی کام کمپنیز کا کردار سب سے زیادہ ہے .مختلف کمپنیز اپنے پرکشش اشتہارات کی وجہ سے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہیں اس اشتہارات میں نوجوان لڑکیوں کو جینز میں ملبوس دکھایا جاتا ہے جو عجیب و غریب کپڑے پہنے اپنے بواے فرینڈز سے باتوں میں مشغول نظر آتی ہیں انہی لیٹ نائٹ پکجز کی وجہ سے نوجوان نسل گمراہی کا شکار ہے اور کوئی انکا پرسان حال نہیں .یہی وجہ ہے کہ گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے .یہ نام نہاد عاشق اپنے جذبات کی تسکین کہ بعد ان لڑکیوں کو اکثر طوائف خانوں میں فروخت کر دیتے ہیں یعنی یہ لڑکیاں نہ گھر کی رہتی ہیں ہیں نہ گھاٹ کی .آنکھوں میں خواب سجاۓ یہ لڑکیاں گھر سے فرار تو ہو جاتی ہیں مگر انکی قسمت میں شوہر کا گھر اور وہاں کی عزت نہیں بلکہ کسی طوائف خانے کا ایک تنگ و تاریک کمرہ ہوتا ہے  



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160