باتوں سے نظام نہیں بدلے گا۔

Posted on at



 پاکستان کا نظام تعلیم کہی خامیوں سے بھرا ہوا ہے خصوصٲ معیاری تعلیم کیلیے مساوی مواقع پیدا کرنے کے نقطہ نظر سے۔ ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی توداد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے اور پراہمری اور زیریں ثانوی سطح پر اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ ۲۹ لاکھ ہے جن میں تقریبٲ ٦۰٪ لڑکیاں ہیں۔ جو بچے اسکول میں داخل ہیں وہ بھی اچھی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ تعلیم کا معیار حد سے زیادہ گر رہا ہے۔ حالیہ جاہزوں کے مطابق صرف 26.5٪ لڑکیاں اردو یا سندھی زبان کا کوہی جملہ پڑھ سکتی ہیں جبکہ اس صلاحیت کے حامل لڑکوں کی شرح33.7٪ ہے۔

  

 

 ایک سیاسی معاملے کے طور پر تعلیم کو بہت نچلی ترجیح حاصل ہے اس لیے پاکستان کی تعلیمی صورتحال وقت گزرنے کے ساتھ بد سے بد تر ہوتی گہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی ایجنڈے پر تعلیم کبھی بلند سطح پر نہیں رہی اور زیادہ تر اسے ایک تکنیکی معاملے کے انداز میں برتا جاتا ہے۔ اگر چہ تعلیم کی ترقی کے بارے میں بہت بیانات داگے جاتے رہے ہیں تاہم تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلیے کوہی منظم متعارف نہیں کراہے گیے۔
 

                    


 سیاسی قیادت تعلیمی شعبہ کیلیے ٹیکنو کریٹک حل تیار کرنے تک محدود رہی ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ تعلیم کا منظم، باضابطہ اور شفاف ربط کبھی قاہم نہیں ہوا، نہ صرف انتخاب کے بعد کے ادوار میں بلکہ انتخابی مہم کے دوران بھی۔ سیاسی جماعتیں جب انتخابی سیاست میں داخل ہوتی ہیں تو تعلیم کو بآسانی نظر انداز کر دیتی ہیں۔ انتخابی سیاست سے تعلیم کے اس عدم تعلق کا سبب شہریوں میں اس کی مانگ نہ ہونا ہو سکتا ہے۔ شہری سمجھتے ہیں کہ وہ سیاسی قیادت سے تعلیم کے حوالے سے گفت و شنید نہیں کرسکتے، ماسواہے بعض زاتی فواہد کے جیسے کوٹے کے تخصیص  میں تقرریاں اساتزہ کے تبادلے اور پوسٹنگ وغیرہ۔ ذاتی مفاد کیلیے یہ سیاسی  فواہد تعلیم میں کوہی بامعنی تبدیلی نہیں لاسکتے۔


 نتیجے کے طور پر سر کاری اسکولوں کی کارکردگی غیر اطمینان بخش ہے اور  ًوہ اپنے علاقے میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں کو اپنی طرف لانے، انہیں پورے سال کی تکمیل تک روکے رکھنے اور معیاری تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہیں ً۔    



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160