خوشگوار زندگی کے رہنما اصول - حصّہ اول

Posted on at


زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں

زنگی میں خوش رہنا اور زندگی کا مزہ اٹھانا ہر انسان کا حق ہے مگر آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں ہر شخص ہی پریشان نظر آتا ہے .آپ خود سوچیں کیا ایسے ماحول میں زندہ رہنا زندگی کہلاۓ گا جہاں ہر طرف تلخی ،فکر اور مایوسی نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوۓ ہوں؟ .اور جہاں طبیعت ہر وقت لڑائی جھگڑے کے لئے تیار رہتی ہو کیا وہ زندگی کہلاۓ گی .جہاں انسان ہر وقت معاشرے کی بے حسی اور تنگ دلی کو یاد کر کر کے جلتا رہے کیا وہ زندگی ہوگی؟ .جب زندگی میں کوئی خوشی باقی نہ رہے اور زندہ رہنے کی تمنا ختم ہوتی ہوئی نظر آئے کیا اس کو زندگی کہنا درست ہوگا؟ .کیا انسانی زندگی کا مقدر صرف بیماری،تنگ نظری ،خوف اور نفرت ہی ہے؟ .اگر مندرجہ بالا سوالات ہم سے پوچھے جائیں تو یقینی طور پر ہم اس کا جواب نفی میں دینا پسند کریں گے .ایک دروازہ جو ہمارے لئے ہمیشہ سے کھلا ہے اور کھلا رہے گا جو ہمارے لئے امید کا دیا ہے وہ آنحضرت صلّ اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی پیروی کا راستہ ہے .ان کی زندگی میں ہمارے لئے ایسے اسباق پوشیدہ ہیں جن پر عمل کر کہ ہم اپنی زندگی خوشگوار گزار سکتے ہیں 

ہماری روز مرہ کی زندگی میں روزانہ بیشمار واقعات جنم لیتے ہیں ان میں کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے اور ہم ان واقعات کا ذکر اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے بھی کرتے ہیں یا اگر کوئی واقعہ کبھی خلاف عقل ہو تو ہم دوسروں سے اس کے بارے میں پوچھتے بھی ہیں مگر یہ ایک عالمگیر سچائی ہے کے ہم برے واقعات کا ذکر بار بار کرتے ہیں .ہماری زندگی میں کوئی برا واقعہ چاہے سالوں پہلے پیش آیا ہو مگر ہم  اس کو اپنے ذہن پر سوار رکھتے ہیں اور موقع بے موقع اس کا ذکر کرنے سے ہرگز دریغ نہیں کرتے جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اس سے ہمارا ذہن منفی انداز میں سوچنا شروع ہو جاتا ہے .اس لئے جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو کوشش کریں کہ اس کو ایک اچھی تعبیر دے دیں.  ایرانی بادشاہ پرویز نے آپ صلّ اللہ الیہ وسلّم کا خط مبارک پھاڑا تھا آپ نے جب یہ خبر سنی تو فرمایا مبارک ہو اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گیئ  اور بعد میں ایسا ہی ہوا 

غصے کو عقل کا دشمن کہا جاتا ہے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے اگر غصہ عقل پر حاوی ہو جاۓ تو انسان ایسے کام کر بیٹھتا ہے جس پر بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا.آپ صلّ الله و سلّم ایک دفعہ مسجد الحرام میں تشریف لے گئے اور خانہ کعبہ کے نگران سے اسکی کنجی طلب کی مگر اس نے انکار کر دیا مگر آپ صلّ الله و سلم نے اس بات پر غصّہ کیا اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاج بلکہ  صرف یہ فرمایا کے ایک دن آئے گا جب یہ کنجی تم خود مجھے دو گے اور فتح مکّہ کے بعد اس آدمی کو وہ کنجی خود آپ کی خدمت میں پیش کرنا پڑی .آپ صلّ الله و سلّم کا فرمان ہے کہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے 

 

جھوٹ آج کل کے دور کی سب سے بڑی معاشرتی برائی ہے .جھوٹ بولنا اب تو فخر کا سبب سمجھا جاتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کے جھوٹا آدمی کسی کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کے قابل نہیں ہوتا .اس کے سچ کو بھی جھوٹ ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور جھوٹے پر تو اس کے گھر والے بھی یقین نہیں کرتے .آپ صلّ الله و سلّم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے آپ کا ایک لقب صادق بھی تھا .اب تو دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ محض تفریح کے لئے بھی جھوٹ بول دیتے ہیں اور ان میں یہ عادت اس  قدر رچ بس چکی ہوتی ہے کے انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے جھوٹ بولا .حالانکہ الله کے رسول نے جھوٹوں پر خدا کی لعنت فرمائی ہے 

مایوسی کفر ہے زندگی میں کبھی کسی چیز سے مایوس ہو کر ہمّت نہیں ہارنی چاہیے .کچھ لوگ کسی بات یا واقعہ کو ذہن و دل پر بری طرح سوار کر لیتے ہیں .جب کہ ہم کو ایک بات اپنے ذہن میں بیٹھا لینی چاہیے کہ ہر رات کے بعد سویرا ہے اور ہر خزاں کے بعد بہار ہوتی ہے .زندگی میں نشیب و فراز آتے ہی رہتے ہیں مگر مشکلوں سے ڈر کر ہمت ہار دینا اور مایوسی کا شکار ہو جانا مردانگی نہیں .ایک مسلمان کی حثیت سے ہمیں ہر وقت پر امید رہنا چاہیے کیوں کہ  مسلمان کی زندگی میں مایوسی کا گزر نہیں ہے 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160