پاکستانی بچوں کی ساہنسی تعلیم نہ حاصل کرنے کی اہم وجہ۔۔﴿حصہ دوم﴾إ

Posted on at


۔ًپاکستانی بچوں کی ساہنسی تعلیم نہ حاصل کرنے کی اہم وجہً۔


 


۔﴿کتابیں ایک منافع بخش کاروبار



کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس مسلے کی جڑ پیسہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسکولوں کی نصابی کتابیں لکھنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کیونکہ بہت بڑی تعداد میں کتابوں کی خرید و  فروخت ہوتی ہے۔ نااہل مصنفین کو شامل کرنے اور منافع میں حصہ بٹانے کیلیے بے پناہ دباؤ ہوتا ہے۔ غالبٲ یہی وجہ ہے کہ پنجاب ٹکسٹ بک بورڈ کی موجودہ جماعت دہم کی ریاضی کی کتاب کے ٦ مصنفین ہیں اور اسی طرح ہر فرد کو فروخت کی آمدنی سے حصہ ملتا ہے اور خامیوں کا الزام بآسانی دوسروں کے سر ڈالا جا سکتا ہے۔




 مجھے اس بات پر شبہ ہے کہ شاہد قواعد و ضوابط سخت کرنے سے فاہدہ ہوگا۔ مقامی  نصابی کتابیں ناقص علم تدریس کا ایسا نمونہ اسی لیے ہیں کہ پاکستان کو قومی کلچر میں ساہنس کا کہیں وجود نہیں۔ ٹی وی پر سیاسی تفریح کی کوہی حد نہیں لیکن ساہنس کے مقامی طور پر تیار کردہ کوہی پروگرام بھی نہیں۔ لاہور کے ایک میوزیم کے سوا میرے علم میں ساہنسی عجاہب گھر نہیں۔




 ساہنس کے بارے میں عوام کی لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ عبدالسلام کی انقلابی تحقیق کو درگزرکر دیا گیا جبکہ پانی کی گاڑی کے جعلی ً موجد ً کو میڈیا میں خوب سراہا جاتا ہے۔




 مسلے کا ایک حل ہے ؛ ساہنس کی اچھی کتابیں موجود ہیں۔ انہیں استعمال کریںإ اعلٰی طبقے کے ً او ً لیول اسکولوں میں بین الاقوامی طور پرشاہع ہونے والی کامیاب ترین کتابوں میں سے ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بے شک میٹرک کے اسکول بھی ان کتابوں کو مناسب طار پر ڈھالنے/ترجمہ کرنے کے بعد ایساکر سکتے ہیں۔ اگر مصنف پاکستانی ہو تو اور بہتر ہے لیکن اہمیت صرف معیار کی ہونی چاہیے، اس بات کی نہیں کہ مصنف کہاں کا ہے۔
 بد قسمتی سے ہوتا یہ ہے کہ ہر جگہ قومی شجاعت کے مظاہرے شروع کردیے یا کروا دیے جاتے ہیں۔ فرمایا جاتا ہے کہ پاکستانی بھی اتنی ہی اچھی ساہنسی کتابیں لکھ سکتے ہیں جتنی کوہی اور لکھ سکتا ہے۔ پس پھر یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں غیر ملکی تعلیمی مواد پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن قومی انا پرستی فاہدہ مند نہیں۔




 صورتحال کو یکسر بدلنے کیلیے مضبوط عزم درکار ہے۔ پاکستانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مقامی طور پر تحریر کردہ نصابی کتابیں غیر ملکی کتابوں کے مقابلے میں غیر معیاری ہیں اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ جہاں بھی بہترین کتابیں دستیاب ہوں استعمال کی جاہیں۔ درآمد کے خلاف دلیل بے معنی ہے کیونکہ ہم غیر ملکیوں کی ایجاد کردہ دواہیں اور کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، ان کے طیاروں میں سفر کرتے ہیں اور ان کے موباہل فون استعمال کرتے ہیں۔



                 


جھوٹی انا اور غلط سلط خیالات کو طرک کر دینا چاہیے۔ اپنی کمتری کا اعتراف کرنا بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن بلاشبہ مستقبل میں ساہنسی طور پر تیز زہن کے حامل پاکستانی پیدا کرنے کیلیے یہ قیمت بہت کم ہے۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160