میرا تاریخی سفر

Posted on at


کہاجاتاہے کہ کسی سفرپر روانہ ہونا سکول جانے کے مترادف ہے اسکا مطلب ہے کہ کسی ایک شہر یا ملک سےدوسرے شہریاملک سفر کرنے سے ہم زندگی اپنے اردگردکی دنیا،انسانی رویوں اورسازگار حالات کی میں اس کے عمل اور رد عمل کے بارے میں بہت کچھ جانتےہیں وہ لوگ جوفطرتامتجسس ہوتےہیں بہت زیادہ سفر کرتے ہیں اوراس طرح مختلف لوگوں کے رسم ورواج اور،رویات،مزہبی رسومات اور طرزبودوباش کے بارے میں خاصی معلومات اکھٹی کرلیتےہیں وہ اپنے اس علم کواپنے سفرناموں کے ذریعے منتقل کرتے ہیں اوریہ سفرنامے دنیا میں دلچسپی سےپڑھے جاتےہیں۔

میں بھی ان شخصیات سے تعلق رکھتاہوں جن کوسفرکرنےاور نئی سے نئی معلومات حاصل کرنے بہت شوقین ہوں لہزا میراایک یادگار سفرجوکالج کے دوستوں کے ساتھ کالج کےسالانہ معلوماتی سفرنامےکےذریعےطے پایا۔ایک مقررہ تاریخ تھی جوکہ چند دن پہلۓ ہی سب کوبتادی گئی تھی غالباً فروری کاتسیرا ہفتہ تھا سردی کاموسم اپنے افتتاقی مراحل پر پہنچا ہواتھاآخر کاروہ دن آگیا جب ہم دوست آکٹھے ایک طویل سفرطے کرنا تھا۔

یہ صبح میرے میرے ایک خوشگوار تھی لیکن اتنالمباسفرکھبی نہ کرنےاور گھرسے پہلی دفعہ اتنے طویل سفر پرنکلنےکیلۓ یہ پہلا ہی موقع ملاتھا اسلئے میں کافی پریشان بھی تھا۔برحال اللہ کا نام لےکرمیں نے اپنے سفرکا آغازکیا اور بس میں سوارہوگۓ تمام طلبا پر جوش دکھائی دے رہے تھےاور اساتزہ کرام بھی تھے جن کی رہنمائی کی وجہ سے ہمیں سفر بہت آسان محسوس ہورہا تھا

لہذا بس کالج سے صبح 9 بجے چیچہ وطنی کی طرف روانہ ہوئی کیونکہ ہمارا پہلا ویزٹ سورج فرٹیلائزر تھا ہم تقریباً 3 گھنٹے میں اس انڈسٹری کے گیٹ پر پہنچ گئے جہاں ہمیں ایک خوب صورت انداز سے خوش آمدید کہا گیا اور اس انڈسٹری سے کافی معلومات حاصل ہوئی ۔

اس کے بعد ہم پتوکی کی طرف روانہ ہوئے جہاں ہم نے رات کو ٹھہرنا تھا اور ساتھ ہی چھانگا مانگا جنگل کی طرف نکل گئے اور اس جنگل کے خوب صورت نظارے دیکھے اور اس کی تاریخ پڑھی ۔ کیونکہ پہلے ہم اس کے بارے سنتے تھے لیکن دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔اور رات پتوکی شہر میں گزاری۔



About the author

160