ٹرین ٹو پاکستان

Posted on at


 

کتابیں پڑھنا میرا شوق ہی نہیں بلکہ جنوں ہے.  پر ایک ہفتے سے مجھے کوئی اچھی کتاب نہیں ملی جسے میں پڑھ سکو ٤ دن پہلے فیس بک استعمال کرتے ہوئے میری نظر ایک  پوسٹ پر پڑھی جو کہ کسی خشونت سنگھ کے بارے میں تھی اسے پڑھ کر میرے اندر اشتیاق پیدا ہوا کہ یہ کون ہے. پھر میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جلدی سے گوگل لگایا اور اس کے بارے میں  معلومات لینے لگی اور مجھے پتا چلا کہ وہ نہ صرف بین الاقوامی  مصنف تھے بلکہ بھارت کے جانے پہچانے والے سیاست داں بھی ان کی پیدائش آج کے پاکستان میں ہوئی اس لئےانھیں  پاکستان سے بہت محبت تھی اور ان کی وصیت کے مطابق ان کیراکھ  کو ان کے آبائی گاؤں میں ان کے اسکول کی دیوار میں رکھا گیا

 

خشونت سنگھ کی کتابوں کے بارے میں جب میں نے معلومات لی تو مجھے پتا چلا کہ زیادہ تر ان کی کتابیں تقسیم ہند کے آر  پار گھومتی ہے. جیسا کہ انہوں سے تقسیم ہند اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی سو میں نے ان کی ایک کتاب  ڈونلوڈ دکی جس کا  نام "ٹرین ٹو پاکستان" تھا. میں نے آج تک بہت سی کتابیں پڑھی ہے پر اس کتاب جیسی آج تک کوئی نہیں پڑھی.

 

سیدھی سی معصوم سی کہانی ١٩٤٧ کا زمانہ، معصوم لوگوں کی معصومیت، اور اک سکھ اور مسلمان لڑکی کی محبت کی  کہانی. ١٩٤٧ کے ایک گاؤں کا ماحول انسان کو کتاب سے آنکھیں اٹھانے نہیں دیتا. کہانی تین افراد کے گرد گھومتی ہے ایک جگا (جگت سنگھ) جو کہ ایک بدمعاش ہے پر دل کا اچھا پر  ایک  مسلمان لڑکی نوراں جو کہ موذن کی بیٹی ہے کہ عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے، دوسرا کردار ایک مجسٹریٹ حکم چند  ہے جو ہے تو عیاش پر ١٩٤٧ کے بعد قتل و غارتکی وجہ سے  وہ اپنے علاقوں سے مسلمانوں کو خیر و آفیت سے نکلنا چاہتا ہے جس کے لئے وہ مختلف چالیں چلتا ہے اور آخر  میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے اور تیسرا کردار اقبال کا ہوتا ہے جسے مجسٹریٹ اپنی چال میں استعمال کرتا ہے.

یہ کہانی منوں مجرا نامی ایک گاؤں کی ہے جو کہ تقسیم کے بعد بھارت کا حصہ بن جاتا ہے اور سرحد پر واقع ہوتا ہے  اس علاقیں میں ایک ہندو خاندان تھا باقی سارے سکھ اور مسلمان تھے. یہ لوگ تقسیم سے بےخبر ایک دوسرے سے ساتھ بہت اچھے سے رہتے تھے پر جیسےہی  ہجرت شروع ہوئی تو اس علاقے کے ارد گرد کے علاقوں میں حالات خراب  ہوئے تو حکم چند کو اپنے لوگوں کی فکر ہونے لگی اور روز بھارت سے مرے ہوئے لوگوں کی ٹرینیں دیکھ دیکھ کر اسے فکر ہونے لگی کچھ  ہی دنوں میں بھارت اور پاکستان کو ملانے والے منوں مجرا کے سٹیشن پر لاشوں کے در جلاۓ جانے لگے اور ساتھ میں مسلمانوں کی اجتمائی قبروں نے لوگوں کو اور ڈرا دیا

 

 ان سب میں حکم چند نے ایک چال چلی اور اس میں کامیاب ہو گیا اس نے پہلے جگا کو قید کیا تا کہ وہ نوراں کی وجہ سے لوگوں کو جانے سے نہ روک سکے اور پولیس کے ہاتھوں پاکستان آرمی کو خط لکھا کہ وہ مسلمانوں کو لے کے جائے اور ساتھ ہی گاؤں میں خبر بیھجی کہ آرمی لینے آ رہی ہے انھیں اور حالات خراب ہو گئے ہے. ایک دوسرے سے بچھڑنے کی تکلیف  گاؤں والے برداشت نہیں کر سکتے تھے پر مٹھی بھر سکھ اتنے لوگوں کا مقابلہ کر کے اپنے پڑوسی مسلمانوں کو نہیں بچا سکتے تھے. اس دن ساری رات گاؤں کے لوگ نہیں سوۓ ایک دوسرے کے ساتھ وعدے کے گئے اور یہ کہ ہم جلد واپس اے گے پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ ہمشہ کے لئے ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہے. صبح آرمی یی اور انھیں جلندر کیمپ لے کر چلی گی اسی دوران کچھ سکھوں نے اس ٹرین کو جو ملمانوں کو پاکستان لے کر جا رہی تھی پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہ حکم چند کو پتا چل گیا جس نے اسے پریشان کر دیا ور اس نے کچھ سوچ کر جگا کو رہا کر دیا

جگا جب گاؤں پہنچا تو اس نے اپنی ماں سے نوراں کا پوچھا پر نوراں کو گاؤں میں نہیں رہنا دیا اس وجہ سے کہ اسے مار دیا جائے گا وہ بھی اسی ٹرین سے پاکستان جا رہی تھی جس پر حملے کا منصوبہ تھا .جب ٹرین سٹیشن سے چلی اور رضا کار  لوگوں کو مارنے کے لئے تیار تھے اس وقت وہ رسی جس نےٹرین  کو روکنا تھا کو اچانک ایک شخص کاٹنے لگا پہلے سب سمجھے   کہ وہ اسے کس رہا ہے پر جب سب کو پتا چلا کہ وہ اسےکاٹ  رہا ہے تو سردار نے نشانہ لگا  کر اسے مار دیا پر وہ رسی کاٹنے میں کامیاب ہو گیا اور ٹرین کی پٹھری پر گر گیا اور ٹرین جگا کے اوپر  سے ہوتی ہوئی پاکستان میں داخل ہو گی..... آج تک میں نے ایسی کہانی نہیں پڑھی اور اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا تقسیم ہند ایک اچھا فیصلہ تھا یا برا.. کیا ہم اس  ملک میں بھی آزاد ہے یا نہیں یا پھر ہم نے بہت کچھ کھو کر کچھ بھی نہیں پایا اور انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے .....

 



About the author

160