سختی اب انتظامیہ کے لیے ہو نی چاہیے

Posted on at



پاکستان میں تعلیم کے شعبے کوگونا گوں مساہل کا سامنا ہے مثلا مختلف حکومتوں کی جانب سے اس شعبے کو حاصل پست ترجیح، ناکافی مالی وساہل، ناقص معیارات اور ازکار رفتہ نصاب، لیکن موجودہ مالی اور انسانی وساہل کی گورننس اور انتظام وانصرام کا مسلہ سر فہرست ہے۔پاکستان میں عوامی سطح پر ہونے والے مباحث میں اس بات پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ حکومت تعلیم پر اخراجات بڑھاہے۔یہ درست ہے کہ علاقے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں حکومت کے تمام درجوں میں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔تاہم اس شعبے میں جس طرح رقوم
ضاہع ہوتی ہیں اور جو ناکارگردگی پاہی جاتی ہے اس کے پیش نظر اگر تعلیم کے لیے مختص رقم بڑھاہی بھی جاہے تو یہ اضافہ تعلیم کی گورننس اور انتظام بہتر بنانے کی سوچے سمجھے منصوبے کے نفاذ سے منسلک ہونا چاہیے۔

 

تعلیم میں گورننس کے مساہل متعدد عوامل کا نتیجہ ہیں۔یہان ہم تمام مساہل کا ذکر نہیں کر رہے تاہم جن مساہل کا تذکرہ ہے ان سے صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔اذل تعلیم کی فراہمی کے مختلف شعوبوں میں وفاقی، صوباہی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ابہام ہے۔تعلیم کی مختلف سطحوں۔پراہمری، ثانوی، کالج، تکنیکی، پیشہ وارنہ، یونیورسٹی۔اور حکومت کے تینوں درجوں کے درمیان واضع حدود نہیں۔اس ابہام اور ملی جلی حدود کی بنا پربھرپور توجہ نہیں دی جا سکتی.

۔دوم، پراہمری سے مٹرک ہاہی اسکول تک کو ۲۰۰١ء میں بجا طور پر ضلعی حکومت کےماتحت کو دیا گیا تھا

                             

لیکن ۲۰۰۸ء میں مقامی حکومتی نظام میں تبدیلی سے اختیاریت کی یہ منتقلی ختم ہو گی ہے اورصورتحال پھر پہلے جیسی ہو گی ہے۔اس کے نتیجے میں صوباہی محکمہ تعلیم کی بیورو کر یسی میں، جہاں عملے اور سازوسامان کی کمی ہے۔

                                       

اختیارات کے اس ارتکاز سے اسکولوں کی نگرانی اور معاہنے کا عمل ناقص ہو گیا ہے۔ضلعی افسر تعلیم کے پاس سرکش ہیڈٹیچرز یا اساتزہ کے خلاف کارواہی کرنے کا اختیار ہے نہ طاقت۔چنانچہ اساتزہ میں غیر حاضری عام ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان سے جواب طلب نہیں کیا جاہے گا اور نہ ہی کوہی کارواہی ہو گی۔سوم، ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ غیر سرکاری اسکول کھلتے جا رہے ہیں لیکن اس امر کو یقینی بنانے کا کوہی اطمینان بخش بندوبست موجود نہیں کہ یہ اسکول کم سے کم معیار پر قاہم رہیں،اہل اساتزہ کی خدمات حاصل کریں، استادوطالب علم کا تناسب مناسب رکھیں اور آزماہش کا نظام ایسا ہو جو طلبہ کو صحیح طور پر جانچ سکے۔ان اسکولوں میں غریب خاندانوں کے طلبہ کے داخلے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور حکومت نے ان محروم بچوں کے لیے نشستیں مختص کرنے کی کوہی ہدایت نہیں کی ہے

 

۔چہارم، صوبہ پنجاب میں کافی عرسے سے اسٹوڈنٹ واوچر اسکیم کامیابی سے جاری ہے لیکن اس کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا عمل سست اور بے قاعدہ رہا ہے۔دوسرے صوبوں میں اسی طرح کی اسکیمیں شروع تو کی گی ہیں لیکن ان سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ اسکیم کم آمدنی والے کنبوں کے باصلاحیت بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرتی ہے۔پنجم، پراہمری جماعتوں میں اور پراہمری سےثانوی جماعتوں  میں منتقلی کے دوران تعلیم ترک کرنے کی شرحیں مسلسل بلند رہی ہیں۔       
                         

 



About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160