استاد اور شاگرد پہلے اور اب حصہ دوئم

Posted on at


 استاد اور شاگرد پہلے اور اب حصہ دوئم


لیکن آج کل کےاستاتذہ میں بھی بہت فرق ہے پہلے دور میں استاتذہ بلا معاوضہ پڑھاتے تھے اور لوگوں کو دینی و دنیاوی تعلیم دیتے تھے اب والدین استاتذہ کو باقاعدہ فیس دیتے ہیں لیکن ان کے بچے ویسے کامیاب نہیں ہوتے جیسے پہلے دور کے لوگ ہوتے تھے پہلے والدین میں صبرتھا اگر استاد بچے کو کسی بات سے مارتا تھا یا سزا دیتا تھا تو وہ برداشت کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے بچے کو پڑھانا ہے اور اسے اس قابا بنانا ہے کہ معاشرے میں اچھا شہری ثابت ہو اب نہ والدین صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نہ ہی استاد اس قابل ہیں کہ وہ بچے کو برداشت کریں یا تو مارا ہی نہیں جاتا یا اتنا مارا جاتا ہے کہ بچہ جان سے ہی چلا جاتا ہے[ ابن خلدون نے سزا مختص کی تھی کہ اگر بچے کو مارنا ہے تو دو چھڑیوں سے زیادہ نہ مارو ]


 



 


لیکن کچھ ایسے واقعات معاشرے میں ہوئے ہیں جس سے استاد کے مقام اور عزت میں فرق آگیا ہے اب والدین اپنے بچوں کو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھی نہیں پسند کرتے کہ ان کے بچوں کو ہاتھ لگایا جائے۔


 



 


اب بعض استاتذہ میں  زیادہ پیسے حاصل کرنے کا لالچ ہوتا ہے وہ کچھ پیسے کے لیے شاگرد کو نقل کرواتے ہیں یا پرچہ دے دیتے ہیں ۔


ایک اور وجہ جو استاد اور شاگرد میں عزت کے مقام کو ختم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ استاد اور شاگرد کی بے تکلفی  استاد اور شاگرد  دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے وہ ہم عمر ہوں استاد کو اپنے اور شاگرد کے درمیان ایک فاصلہ رکھنا چاہیے جس سے اس کا شاگرد پر تھوڑا سا رعب ہو  اور شاگرد کو ڈر ہو کہ اس نے استاد سے پڑھنا ہے یا اگر نہ پڑھا تو استاد کوئی ایکشن لے گا۔


 



 


پہلے دور میں جو شاگرد ہوتے تھے وہ اپنے استاد کی عزت کرتے تھے اس کے پیچھے چلتے تھے وہ جب تک بیٹھتا نہیں تھا بیٹھتے نہیں تھے اس کی کہی ہوئی ہر بات پر غور کرتے تھے اور عمل بھی کرتے تھے لیکن اب بات اس کے بالکل برعکس ہے اگر استاد جا رہا ہوتا ہے تو اس اگنور کر کے آگے چلا جاتا ہے  اگر وہ شاگرد کی بہتری کی کوئی بات کرتا ہے تو عمل کرنا دور کی بات غور سے سننا بھی پسند نہیں کرتے۔


 



 


ہمیں اگر اپنے بچوں کو پڑھنا ہے تو اچھے اور قابل استاد کا انتخاب کرنا ہو گا اور اس پر بھروسہ کرنا ہو گا اور استاد کو بھی چاہیے کہ وہ اسطرح اپنے شاگرد کو پڑھائے کہ وہ آسانی سے پڑھائی کے مطلق اپنے استاد سے رہنمائی حاصل کرے اور شاگرد کو چاہیے کی وہ ہر حال میں اپنے استاد کی عزت کرے اور اپنے استاد کو وہ مقام دے جس کا وہ حق دار ہے۔  


 



About the author

160