کندن بہروپیہ اورنگزیب عا لمگیر کے دربار میں

Posted on at


ایک دفعہ اورنگزیب عالمگیر اپنے دربار میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک شخص اس کے دربار میں داخل ہوا۔ اور بولا کہ میرا نام کندن بہرپیا ہے۔ اور میں ایسے ایسے روپ بدل لیتا ہوں کہ کوئی بھی شخص مجھے پہچان نہیں سکتا۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ بر صغیر کے ذہین ترین انسان ہیں ، کوئی بھی شخص ذہانت  میں آپ کو مات نہیں دے سکتا۔ مگر میں آپ کہ چیلنج کرتا ہوں کہ آپ بھی مجھے پہچان نہیں سکیں گے۔ پہلے تو اورنگزیب عالمگیر نے اس سے کہا کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں مگر جب بہروپیے نے اصرار کیا تو فن تو فن ھے۔ آپ مجھے کبھی بھی نہیں پہچان سکیں گے۔ اگر پہچان گئے تہ آپ بادشاہ ہیں ۔ میں تو کچھ دے نہیں سکتا مگر نہ پہچان سکے تو آپ مجھے فلاں چیز انعام میں دیں گے۔ اورنگزیب عالمگیر نے کہا کہ ٹھیک ہے۔

بہروپیا گھر پہنچا تو سوچ میں پڑھ گیا کہ انتے بڑے بادشاہ کہ چیلنج تو کر آیا ہے مگر اب ایسا کیا روپ بدلے کہ بادشاہ اسے نہ پہچان سکے۔ اسی اثنا میں اسے پتہ چلا کہ بادشاہ ہر سال سرحد پہ جاتا ہے دشمن سے لڑنے کے لئے۔ اور ابھی ہی واپس آیا ہے۔ اور ایک سال کے بعد دوبارہ جائے گا۔ اس نے اپنا بوریا بستر باندھا اور سرحد کی طرف چل پڑا۔ واہا ں پہنچ کے وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور اللہ کا ذکر کرنے لگ گیا۔ آہستہ آہستہ ارد گرد کے لوگوں کہ پتہ چلا تو وہ اس کے پاس آنے لگے۔ شروع میں بہت کم لوگ آئے لیکن جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چلتا گیا تو اس کے ارد گرد جمع ہونے والوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اور گائوں کے لوگوں نے اس کے لئے ایک جھونپڑی بنا دی۔ الغرض ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اس کے معتقدین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اور وہ ہر وقت بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہتا۔

آخر سال کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے جنگ کی غرض سے سرحد کا رخ کیا۔ وہ بادشاہ جو ہمیشہ ہر میدان میں کامیابی حاصل کرتا آیا تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دفعہ وہ جنگ ہار گیا۔ دورا حملہ کہ پھر ہار گیا۔ تیسرا حملہ کیا پھر ہار گیا۔ ایک رات بےچینی کی عالم میں اپنے دربار میں گھوم رہا تھا کہ اس کا سپہ سالار داخل ہوا اور عرض کی کہ اے بادشاہ سلامت جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں۔ اجازت ملنے پر وہ بولا کہ اس علاقے میں ایک بزرک رہتا ہے جو ہر وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس آتے ہیں اپنی مرادوں کے لئے۔ آپ اجازت دیں تو اسے بلا لیں تا کہ آپ اس سے دعا کرا دیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو جائے۔ اورنگزیب بولا کہ ایسی بات ہے تو ہم خود اس کی طرف جائیں گے۔ اور یہ کہہ کے اورنگزیب اپنے درباریوں اور سپہ سالار کے ساتھ اس بزرگ کی جھونپڑی میں آ گیا۔ اور اپنی ساری پریشانی بیان کی۔ بابا جی نے فرمایا کہ تم ابھی حملہ نہ کرو بلکہ فلاں دن ظہر کی نماز کے بعد حملہ کرنا انشاء اللہ تم کامیاب ہو گے۔ 

اگلے دن بادشاہ نے اعلان کرا دیا کہ ابھی ہم حملہ نہیں کریں گے۔ بس فوج کہ ایک دفعہ پھر سنبھلنے کا موقع مل گیا۔ ذخمیوں کے ذخم بھی بھرنے لگے۔ اور پوری فوج میں ایک نیا جوش بھر گیا کہ اگر بزرگ نے کہا ہے تو ہم جیت ہی جائیں گے۔ 

آخر کار وہ دن آیا۔ بادشاہ نے فوج کہ حملہ کرنے کا حکم دیا۔ سارا دن گزر گیا۔ رات آئی۔ بہت کانٹے دار جنگ ہوئی اور آخرکار اورنگزیب کی فوج نے دشمن پر قابو پا لیا۔ اورنگزیب بجائے دربار جانے کے سیدھا جھونپڑی میں بزرگ کے پاس گیا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور عرض کی کہ بابا جی میں آپ کہ تحفے کے طور پر کچھ زمین آپ کے نام کرنا چاہتا ہوں۔ مگر بابا جی نے انکار کر دیا۔ اورنگزیب نے بہت اصرار کیا مگر بابا جی نہ مانے۔ آخر کار اورنگزیب تھک ہار کے واپس آ گیا۔

اگلے دن جب وہ دربار میں بیٹھا تھا کہ اچانک دربار کا دروازہ کھلا اور اس نے دیکھا کہ بابا جی دربار میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ ایک دم اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔ اور اپنی نشست سے اتر آیا۔ بابا جی کے پاس آیا اور احترام سے بولا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی۔ مجھے حکم دیتے۔ میں آ جاتا۔ مگر بابا جی نے فرمایا کہ نہیں کام میرا تھا۔ اس لیے میں آیا ہوں۔ اورنگزیب بولا حکم کریں۔

اس وقت بابا جی نے فرمایا کہ تمہیں یاد ہو گا کہ ایک سال پہلے تمہارے دربار میں ایک بہروپیا آیا تھا اور چیلنج کیا تھا کہ وہ ایسا روپ بدلے گا کہ تم اسے نہیں پہچان پائو گے۔ میں وہ ہی کندن بہروپیا ہوں۔ اور تم چیلنج ہار گےء۔ اب مجھے میرا انعام دو جو طے ہوا تھا۔ بادشان بولا کہ وہ تو ٹھیک ہے میں دے دیتا ہوں۔ مگر ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ یہ کہ تم کو میں نے کل اتنی زمین کی آفر کہ کہ تمھاری نسلیں بھی بیٹھ کے کھاتیں تو ختم نہیں ہو سکتی تھیں۔ مگر تم نے انکار کر دیا۔ اور آج ایک چھوٹے سے انعام کے لئے میرے پاس آ گئے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے۔

اس وقت بزرگ نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت کل تک میں نے جن لوگوں کا لباس پہنا ہوا تھا ان کہ یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ ایسی چیزیں قبول کریں۔ میں نے ان کا لباس پہنا ہوا تھا تو میں ان کے لباس کے ساتھ کیسے غداری کر سکتا تھا۔ اس لئے میں نے انکار کر دیا۔ اور آج میں وہ ہی کندن بہروپیا ہوں جو مانگنے والا ہے۔ اس لئے مجھے میرا انعام دیں تا کہ میں جائوں۔ 

ذرا سوچئے کہ ہم اج اپنے لباس کے ساتھ کیسے کیسے بے ایمانی کرتے ہیں۔ کاش ہم میں بھی وہ ہی سوچ آ جائے۔ اور ہم میں سے ہر شخص اپنا کام ایمانداری سے کرنا شروع کر دے۔ تو یہ دنیا امن کا گہوار ہ بن جائے۔ 

اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں پیدا کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین



About the author

Muhammad989

I am Lecturer in Chemistry at Cadet College Kalar Kahar.... Pakistan.....

Subscribe 0
160