اسلامی جمہوریہ پاکستان کی زبانیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسرا حصہ

Posted on at


مختلف مراحل میں ناموں کی طرح اس کا ادبی آہنگ بھی بدلتا رہا ہے مثلا امیر خسرو ہندی یا ہندوی کے قدیم شاعر گردانے جاتے ہیں۔آگرہ کی بجاے شاہ جہاں نے دہلی کو اپنا دارلخلافہ بنایا تو لشکری زبان بولنے والے اور دہلی زبان بولنے والے ایک ہی بازار میں رہتے تھے۔بادشاہ نے اس بازار کو اردو ے معلی سے پکارنا تجویز کیا وہاں کی زباند کو اسی نسبت سے دہلوی زبان کہا جانے لگا۔جب یہ زبان دکن اورگجرات پہچی تو اسے دکنی اور گجراتی کہا جانے لگا اس کی مقبولیت کو دیکھ کر امراء نے اس کی ترقی کے لے خصوصی کوششیں کیں اس طرح یہ بول چال کی سطح سے بلند ہو کر جلد ادبی درجہ حا صل کرنے لگی۔انییسویں صدی کے ابتدای عشروں میں نظم کے ساتھ سات  اردو نثر کو بھی ترقی ملی اسی دور میں مرزا غالب جیسے عظیم المتبت شاعر پیدا ہوے۔مرزا غالب کی غزل کے ساتھ ساتھ ان کی نثر بھی اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بنی



سر سید احمد خاں نی علی گڑھ کالج قام کیا جس جی وجہ  سے مسلمانوں کی معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں نثر میں نمایاں ترقی حآصل کی سر سید اور ان کے رفقا نے اردو نظم اور نثر پر نے تجربات کیے اور اردو کو نی جہیتوں سے روشناس کرایا اس دور میں ترقی کا احساس ہوا۔انہی ایام میں مولانا شبلی نے اسلامی ﴿مسلمان دور ﴾ تاریخ کا ایک نے اندازا میں پیش کیا۔



شاعر علامہ محمد اقبال کے فلسفے اور شاعری کا سورج اس کے بعد طلوع ہوتا ہے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے پورے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کی کہ مسلمان  عظیم ثقافتی تمدنی



 


اور نظریاتی ورثے کے حامل ہیں،ان پر جو افتاد پڑی ہے اس کا حل صرف یہی ہے کہ وہ اپنی خودی کو



مضبوط کر کے نے حآلات و مشکلات کا مقابلہ کریں۔اس کے علاوہ انہوں نے اس خقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہے وہ باہم ایک رشتے میں منسلک ہیں



About the author

160