کفایت شعا ری(حصہ دوئم )

Posted on at


اسراف کے ساتھ ساتھ الله پاک نے بخل اور کنجوسی سے بھی منع کیا ہے-وہ انسان جو ملی استعداد رکھنے کے باوجود اپنی اور اپنے افراد خانہ کی جائز احتیاجات پوری نہیں کرتا،وو بخیل ہے،اور نبی کریم کا ارشاد پاک ہے کہ بخیل کتنا ہی نیک اور عابد ہو،وہ جنّت میں نہیں جا سکتا-ایک انسان حد اعتدال میں رهتے ہوے اپنے متعلقین کے آرام و آسائش پر خرچ کرتا ہے اور چونکہ یہ خرچ فرمان الہی کے مطابق ہوتا ہے،اس لیے الله پاک اس شخص کو صدقے کا ثواب بھی عطا کرتا ہے-

حلال ذرائع سے ہاتھ آنے والی کمائی سے زندگی میں آسودگی اور طمانیت ضرور آتی ہے ،عیاشی اور اسراف نی آتا- جہاں تعیش دکھائی دے ،وہاں خرچ ہونے والی کمائی یقینن مشکوک ہو گی- اسلام میں حاجت مندوں اور غریبوں کی خاطر دل کھول کر خرچ کرنے کا حکم ہے- الله پاک کی راہ میں وہ سب کچھ دے دینے کی تلقین ہے،جو انسان کی اونی ضروریات سے زائد ہو –

سخاوت اور فیاضی انسان کو الله کا دوست بنا دیتی ہے- اور آخرت میں ووہی مال انسان کے کام اے گا جو وو الله کی راہ میں خرچ کرے گا –باقی مال تو اس کا نہیں ،بلکہ اس کے ورثا کا ہے-چناچہ ہمارا طرز عمل یہ ہونا چاییے کہ ہم اپنی نمود و نمائش پر دولت ضا یع کرنے کی بجاے محتاجوں کی مالی مدد کریں،اور ان کے درد بانٹنے کی کوشش کریں-

رکھتے ہیں جو آوروں کے لیے پیار کا جذبہ

وو لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے

معا شرے میں نمود و نمائش میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی خوائش انسان کے اخراجات کو بے قابو کر دیتی ہے اور بسا اوقات اور مقروض بھی بنا دیتی ہے –ہمیں مادی طور پر اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف بھی دیکھنا چاییے –کہ اس اطمنان کی دولت ملے گی اور نیکی کے کاموں میں اپنے سے برتر لوگوں کی پیروی کرنی چاییے

–اسی سے ہماری انفرادی و اجتمائی زندگی میں آسودگی و طمانیت پدی ہو سکتی ہے –کفایت شعا ری و قناعت پسندی علی انسانی اوصاف میں سے ہے اور اپنے تئیں اس واصف کا پیدا کرنا یقینن ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ :

قنا عت ہی وہ دولت ہے جو ہر گز کم نہیں ہوتی

مگر چشم ہوس اس راز کی محرم نہیں ہوتی



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160