زبان کی کارستانیاں

Posted on at


زبان انسان جسم کے ایک حصّہ جسے کبھی قرار نہیں ملتا کیوں کہ اس میں ہڈی نہیں ہوتی اور یہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہے  اگر ہڈی هو تو یہ بھی قرار پکڑے-  ہڈی نہ ہونے کے سبب یہ بے قرار رہتی ہے اور اپنے چسکے کے لئے  ہر وقت کسی نہ کسی کی غیبت،چغلی یا تعریف میں مصروف ہی  رہتی ہے- آج کے دور میں کوئی شخص زبان پر بھروسہ نہیں کر سکتا وقت کے ساتھ لوگ بدلتے ہی ہیں زبان کو بھی بدلتے دیر نہیں لگتی یہ وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے –



زبان کی زد میں کوئی ایک خاص انسان نہیں آتا بلکہ اس کی زد میں سیاستدان، حکمران ، علماء،رشتے دار چھوٹے بڑے سب ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں- مثل مشہور ہے کہ "پہلے تولو پھر بولو " لیکن ہم انسان تکڑی ترازو کا بکھیڑا نہیں پالتے سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی بول دیتے ہیں بنا یہ سوچے اگلے پر اس کا کیا اثر مرتب ہو گا- لوگ کہتے ہیں کہ زبان کو بتیس دانتوں کے پیچھے اسی لئے قید کیا گیا ہے کہ کچھ بھی بولنے سے پہلے انسان بتیس مرتبہ سوچ لے مگر انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے اور ہم بولنے لگیں تو بولتے ہی چلے جاتے ہیں اور سوچنے کی زحمت نہیں کرتے-


                                                                                                                 


انسان کو یہ زبان ذکر الہی سے تر ہونے کے لئے دی گئی ، جو زبان الله کے ذکر اور عشق نبی میں مصروف ہونی چایئے وہی زبان چغلی، غیبت الزام تراشی اور بہتان کے بے کنار سمندر میں غوطے کھا رہی ہے- بلا خوف و جھجک ہم جھوٹ بولتے ہیں اور کسی پر بہتان لگانے سے نہیں کتراتے- متعدد احادیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ غیبت سے اجتناب کرنا چایئے اور جس نے غیبت کی قیامت کے دن وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاۓ گا مگر ہماری زبان پورا دن ہر راہ چلتے کے بھی غیبت کرتی ہے-



 


زبان جو ہمارے پورے جسم ، فطرت، مزاج اور سوچ کی واحد ترجمان ہے اسے ہم لوگوں نے سیف بے نیام بنا رکھا ہے- جب انسان اپنی زبان کھولتا ہے تو پتہ چلتا ہے انسان کس طرح کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی تربیت کیسی کی گئی ہے اس کی مثال ایک دکان کی سی ہے دکان کھلنے کے بعد ہی انشکاف ہوتا ہے کہ دکان کوہلے کی ہے یا ہیرے کی   –اس کی تیزی بھالے ،چھری، کانٹے اور خنجر سے بھی زیادہ کاری ہے- اس کی دی گئی چوٹ سب سے زیادہ سنگین ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ "نیزوں کی انیوں سے لگاۓ گئے زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن زبان کی نوک اور دھار سے لگاۓ گئے زخم کبھی نہیں بھرتے"



زبان دانتوں کے پیچھے ہے بتیس دانت بھائیوں کی طرح اپنی اس بہن کی رکھوالی کرتے ہیں مگر یہ اکلوتی بہن بتیس کے بتیس بھائیوں کو بھی مروا سکتی ہے اور ایسا بہت دفعہ ہوا بھی ہے اس کے سارے بھائی مر بھی گئے مگر زبان کو پھر بھی لگام نہیں ڈال سکے اور زبان چپ نہیں ہوئی- ہماری اپنی زبان سے نہ دوست نہ دشمن، نہ اپنے نہ پراے محفوظ ہیں یہ دو دھاری تلوار ہمارے اعمال اور لوگوں کی عزت کو دن رات برباد کر رہی ہے – ایک زبان کے نا قابو میں رہنے سے حالت قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں – الله سے دعا ہے کہ ہماری زبان کو اپنے ذکر میں مصروف کر دے کہ کوئی اس کی زد میں نہ آ سکے-  



 


 



About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160