یونہی سج دھج کے رہنے سے کہاں توقیر بنتی ہے
دعا جذبے نہ اوڑھے تو کہاں تاثیر بنتی ہے
جگر کے زخم ہی تو داستان مئی رنگ بھرتے ہیں
وگرنہ لفظ لکھنے سے کہاں تقریر بنتی ہے
شکستہ منظروں کی کرچیاں چبھتی ہیں آنکھوں میں
کہ دیواروں کے خوابوں کی کہاں تعبیر بنتی ہے
یہ سوچا تھا کہ برستی آنکھیں اسکو روک لیں شاید
مگر اشکوں کی کڑیوں سے کہاں زنجیر بنتی ہے
ہزاروں بار کوشش کی مگر ممکن نہیں عاشر
بھلا خود ہی بنانے سے کہاں تقدیر بنتی ہے
گمنام گداگرعاشر