پردے کا اسلامی مفہوم

Posted on at


 

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ میں شروی پردہ کرتی ہوں کیوں کہ دینی مدرسہ کی طالبہ ہوں اور مجھے پریشانی تب ہوتی ہے جب کسی تقریب میں مجبو راَ برقع اتارنے پر مجبور کرنے والے کہتے ہیں کہ "پردے کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا ، بس اوڑھنی کا ذکر آیا ہے"

اس حوالے سے "شرعی پردہ " کسے

کہا جائے گا اور شرعی اعتبار سے کتنا پردہ کرنا چائیے؟ عورت کے لئے چہرے کا پردہ لازم ہے کیونکہ گندی اور بیمار نظریں اسے پر پڑتی ہیں۔ چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں عورت کا ستر نہیں یعنی نماز میں ان اعضاء کا چھپانا ضروری نہیں لیکن گندی نظروں سے ین اعضاء کا ختی الوسع چھپانا ضروری ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کوئی لڑکی پردہ کرتی ہے اور اپنے سسرال میں اور وہاں پردے کا ماحول نہیں ہے ، یعنی اپنے دیوروں اور دیگر رشتہ داروں سے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پردہ اتنا سخت بھی نہیں کہ اگر کوئی پردہ کرتی ہے تو چادر کا گھونگھٹ گرا کر بھی اپنا کام کر سکتی ہے ؟ اک ایسا مکان جہاں عورت کے لئے نا محرموں سے چاردیواری کا پردہ ممکن نہ ہو، وہاں یہ کرے کہ پورا بدن ڈھک کراور چہرے پر گھونگھٹ کر کے شرم و حیا کے ساتھ نا محرموں کے سامنے آجائے (جبکہ اس کے لئے جا نا

نا گزیر ہو)۔

یہاں بنیادی طور پر دو مسئلے ہیں: ایک یہ کے کتنے حصے کا پردہ ہے اور داسرے یہ کہ کن لوگوں سے پردہ ہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ "اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور دیگر مسلما عورتوں سے کہہ دیجیے

کے جب وع گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی بڑی چادر کا پلہ چہرے اور سینے پر ڈال لیا کریں۔

احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو مسلمان عورتیں اس طرح نکلتی تھیں کہ راستہ دیکھنے کے لئے ایک آنکھ کھلی رہتی تھی۔

دوسرا مسئلہ کی کن کن سے پردہ کیا جائے ؟

جو لوگ اپنے محرم ہیں ، ان سے پردہ نہیں ااور محرم وہ ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے اور نا محرموں سے پردہ ہے۔ اگر ضرورت کی بناء پر عورت کو ملازمت کے لئے جا نا پڑے تو وہ پردے

کا اہتمام ضرور کرے ۔

شرم و حیا کا نام پردہ ہے ، یہ تو ظاہر ہے کہ شرم و حیا ایک اندرونی کیفیت ہے اسکا ظہور کسی نا کسی قالب اور شکل میں ہوگا ، اگر وہ قالب وقل و فطرتکے مطابق ہے تو شرم و حیا کا مظاہرہ بھی صحیح ہو گا اور اس قالب کو عقل صحیح اور فطرت سلیمہ قبول نہیں کرتی تو شرم و حیا

کا دعوی اس پاکیزہ صفت سے مذاق تصور ہو گا۔

صنف نازک کی وضع ساخت ہی فطرت نے ایسی بنائی ہے کے اسے سراپا ستر کہنا چایئے یہی وجہ ہے کہ خالق فطرت نے بلا ضرورت اسکے گھر سے نکلنے کو برداشت نہیں کیا تا کہ گوہر آب دار ، نا

پاک نظروں کی ہوس سے گردآ لود نہ ہو جائے۔



About the author

ayesha-rehman

I am Ayesha Rehman its enough to describe me..

Subscribe 0
160