ہمارے معاشرے میں جب کوئی بھی افسر یا کوئی بھی سرکاری نوکری کرنے والا ہو تو جب وو ریٹائر ہوتا ہے تو وو اپنے جمہ پیسے جو کہ اس کو اس کی محنت کے ملتے ہیں وو محنت جو کہ وو دن کو جاتا رہا ہوگا اور اپنے بچوں کے لئے اپنا پیٹکاٹ کر محنت کرتا ہوگا دھوپ چھاؤں میں اور ہر جگہ جا کر کام کرتا ہوگا جب ووہی انسان ریٹائر ہو جاتا ہے تو اسے اپنی فکر سی لگ جاتی ہے کہ آگے کیا ہوگا کیسے اس کی خرچ پورا ہوگا اور کیسے اس کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری ہونگی وو اسی سوچ میں پڑھ جاتا ہے اور ہمارے لوگ بھی اسے طرح طرح کے مشورے دینے لگ جاتے ہیں اور کوئی یہ تک نہیں کہتا کہ جس اللہ نے تمہیں اتنا عرصہ اتنا دیا ہے آگے بھی ووہی اللہ روزی دیگا ہوتا کیا ہے کہ وو لوگوں کی باتیں سنتے سنتے اپنی ذھن میں سوچتے سوچتے یہاں تک ہی اس کی سوچ آ جاتی ہے
کہ کیوں نہ اپنے پیسے بینک میں ہی رکھوا دیں کم از کم اس پر منافع تو ملے گا ہی اور بیٹھے بیٹھے رقم بھی دگنی ہو جاۓ گی اور شیطان اس کے ذھن کو اس سلسلے میں پکا کر دیتا ہے اور وو اسی بات پر ڈٹ جاتا ہے اور وو اپنے پیسے جا کر بینک میں رکھا دیتا ہے منافع یعنی سود پر لگا دیتا ہے اس بات کو ؤ جرم نہیں سمجھتا اور سمجھے بھی کیسے کیوں کہ اس نے کبھی قران کھولا ہوگا تو اسے پتا چلے نہ کہ سود کا عذاب کیا ہے سود کھاتے کھاتے ہی جب ؤ شخص بوڑہ ہو جاتا ہے اور جب وو محتاج ہوتا ہے تو سب سے پہلے تو اللہ اسے دنیا میں ہی عذاب دینا شروح کر دیتا ہے اور اس کے سامنے اس وقت دنیا کی حقیقت کھلتی رہتی ہے جب اس کے بیٹے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور بدتمیزی کرتے ہیں یہ کس وجہ سے ہوتا ہے کیوں کہ جب آپ اپنے بچوں کے پیٹ میں حرام یا سود کا کھانا ڈالیں گے تو اللہ عذاب کی شکل میں ایسا ہی کرے گا تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو
سود ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے جو کہ انسان کی نیکیاں دیمک کی طرح کھاتا رہتا ہے اور اس انسان کی موت بھی بہت ہی مشکل ہوتی ہے سود کا ایک پیسہ کھانا اپنی ماں کے ساتھ ٧٠ بار زنا کے برابر ہے تو گویا جو انسان بھی سود کھا رہا ہو وو کم از کم اسی گناہ کو دیکھ کر شرم کریں اور اللہ سے توبہ کریں ابھی وقت ہے اگر آج ہی سچے دل سے توبہ کریں تو اللہ معاف کر دیگا ورنہ جب موت کا فرشتہ آ گیا تو ساری عمر جہنم میں جلنے کے علاوہ باقی کچھ بھی نہیں بچے گا