طالب علم کے حصول تعلیم کے مابین۔۔۔۔!۔

Posted on at



'او لیول' میں کتنے طلبا امیدوار ہوتے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات کتنے ہوتے ہیں؟
ان سوالات کے جواب کسی کو معلوم نہیں، کسی تجارتی راز کی مانند انہیں خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان طلبا کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے۔ سندھ کے تین پسندیدہ جامعات ڈاو میڈیکل، این ای ڈی اور آغا خانیونیورسٹی کی غیرجانبدار نہ تحقیق سےمعلوم ہوا کہ سندھ کے سرکاری بورڈز سے کامیاب ہو کر آنے والے طلبا 'او لیول' اور 'اے لیول' کے طلبا کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات، ان جماعتوں کے داخلہ ٹیسٹ میں بھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔


تاہم دنیا کے ہر تعلیمی نظام میں یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ والدین کی آمدنی اور طالب علم کے حصول تعلیم کے مابین ایک مستحکم تعلق پایا جاتا ہے۔

'او لیول' اور اے لیول' کی قابلیت پاکستان کے مقتدر طبقے کو تو ایک راستہ فراہم کرتی ہے لیکن یہ حل پوری قوم کے لئے نہیں ہے۔ نتیجتا ملک کے مالی اور ملک کے چند دولت مندوں اور بے شمار مفلسوں کے مابین بے گانگی کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔


یہ بات اہم ہے کہ سرکاری نظام تعلیم اس پر فوری رد عمل کا اظہار کرے۔ تعلیمی وسائل پہلے ہی نہایت محدود ہیں، ان پر دعوے داری کی درڑ کا فیصلہ حصول تعلیم کی پیمائش کے0۔0009 تناسب (1100 میں ایک نمبر) کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے او لیول قسم کے گریڈز کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے جو رپورٹنگ میں تقریبا 200 گنا کم اختصاصی ہوتے ہیں۔





About the author

eshratrat

i really like to write my ideas

Subscribe 0
160