اردو ادب کا انوکھا افسانہ نگار - سعادت حسن منٹو

Posted on at


سعادت حسن منٹو کا نام اردو ادب کے قارئین کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ان کو بلا شرکت غیرے اگر اردو افسانہ نگاری کا بادشاہ تسلیم کیا جاۓ تو بے جا نہیں ہوگا . منٹو کا نام اردو ادب میں آفاقی حیثیت کا حامل ہے . ٢٠ ویں صدی کے عظیم ترین افسانہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے جو نقوش اپنے قارئین کے ذہنوں پر چھوڑے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی . ان کی افسانہ نگاری کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ وہ اپنے الفاظ کے ذریعے قاری کو اتنا مسحور کر لیتے تھے کہ پڑھنے والا خود کو اسی افسانے کا ایک حصہ سمجھنے لگتا تھا . اردو ادب کے لافانی افسانے جیسے ٹوبہ ٹیک سنگھ ، ٹھنڈا گوشت اور کھول دو سب منٹو کے ہی کاٹ دار قلم کی مرہون منت ہیں . سعادت حسن منٹو کی شہرت انتہائی آزاد خیال ادیب کی تھی مگر ان کے قارئین میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے تھے . انہوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں اور ریڈیو کے لئے بھی اپنے قلم کی خدمات پیش کیں . ان کا نام اپنے دور کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادباء کی فہرست میں شامل ہے . اس عظیم افسانہ نگار نے ١٩٥٥ میں لاہور میں وفات پائی . آئیے ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں 



اردو ادب کے عظیم ترین افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ایک کشمیری فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی پیدائش ١٩١٢ میں ہندوستان میں ہوئی . ان کے والد کا نام غلام حسن منٹو تھا اور وہ کشمیری ذات سے تعلق رکھتے تھے . منٹو کی پیدائش ہوئی تو اس وقت ان کے والد امرتسر کے ایک چھوٹے سے محلے میں خاصے بڑے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے . غلام حسن منٹو کی پہلی بیوی کا نام جان بی بی تھا اور جان بی بی سے ان کے ٤ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی . اس کے بعد غلام حسن منٹو نے دوسری شادی لاہور میں سردار بیگم کے ساتھ کی اور دوسری بیوی سے ان کے ٢ بچے پیدا ہوۓ جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی . لڑکی کا نام اقبال بانو اور لڑکے کا نام سعادت حسن منٹو رکھا گیا . جب منٹو کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد گرامی اس وقت جج کے عہدے پر فائز تھے مگر انہوں نے ١٩١٨ میں وقت سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی . غلام حسن منٹو کا انتقال ٧٦ برس کی عمر میں امرتسر میں ہوا . والد کی وفات کے وقت منٹو کی عمر محض ١٨ سال کی تھی . تاریخ میں آتا ہے کہ منٹو کے والد محترم انتہائی سخت مزاج شخص تھے اور ان کی سختیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ کر منٹو بمبئی فرار ہو گئے تھے . یعنی منٹو شروع ہی سے باغیانہ فطرت کے حامل تھے اور یہی فطرت بعد میں ان کی تحریروں کی خاصیت بنی اور اسی بات نے ان کو افسانہ نگاری کے منبر کی امامت کے منصب پر فائز کیا 



والد کے ڈر سے منٹو جب بمبئی فرار ہوۓ تو اس وقت وہ میٹرک کے طالب علم تھے . منٹو کے بچپن کو قریب سے دیکھنے والے افراد کے مطابق منٹو بچپن میں انتہائی شریر اور شیطانی قسم کی ذہنیت رکھنے والا بچہ تھا اور اپنے دوستوں کو پریشان کرنے کے لئے غیر معمولی شرارتیں کرنا اس کا معمول تھا . دوستوں میں وہ ٹومی کے نام سے مشہور تھے . مگر گھر کے اندر منٹو ایک ڈرا ڈرا اور سہما ہوا بچہ رہتا کیوں کہ سوتیلے بہن بھائیوں کی بہتات اوپر سے والد کی سخت مزاجی کی وجہ سے وہ خود کو ان پر ظاہر نہیں کرتا تھا . اس لئے وہ اپنی فطرت کا اظہار گھر کی بجاۓ باہر گلی میں دوستوں کے ساتھ ہی کر پاتا تھا . ابتدا ہی سے منٹو کو تعلیم سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی اور میٹرک کا امتحان انہوں نے بڑی مشکل سے ٣ مرتبہ فیل ہونے کے بعد ١٩٣١ میں پاس کیا تھا . یہی وہ دور تھا جب انہوں نے افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا اور انسانی نفسیات کے موضوع کا انتخاب کیا . ان کے شہرہ آفاق افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ ، ٹھنڈا گوشت ، دھواں اور بو پاکستان بننے کے بعد کی تخلیق ہیں 



منٹو شراب کے رسیا تھے اور کثرت شراب نوشی ان کا معمول . یہی بات بعد میں ان کی موت کا سبب بنی مگر وفات سے قبل اپنے قلم کی وجہ سے اردو ادب کو افسانوں کا جو خزانہ وہ عنایت کر گئے اس کی مثال ملنا نا ممکن ہے . منٹو اردو ادب کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے تحریریں آج بھی اس شوق سے پڑھی جاتی ہیں جسے ان کی زندگی میں . ایک بہت دلچسپ بات جس کا ذکر یہاں ضروری ہے کہ اپنی موت سے قبل منٹو نے اپنی قبر کے لئے ٢ عدد کتبے خود تحریر کئے تھے جن میں سے ایک کتبے کی تحریر تو کفر کی زد میں آتی ہے مگر جو دوسرا کتبہ ان کی قبر پر آج آویزاں ہے وہ ان کا اپنا تحریر کیا ہوا ہے جس پر لکھا ہے کہ "سعادت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا



مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر 


حماد چودھری


 


 


 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160