زندگی میں بغیر مفاد اور مقصد ساتھ دینا

Posted on at


جیسے پودے کو مناسب آب و ہوا پانی کھاد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے بلکل ایسے ہی انسان کے جذباتی اور ذہنی نشونما کے لئے عزیزواقارب دوست احباب کے ساتھ اہم کردار ہوتا ہے اگر یہ رشتے بےلوس ہوں بغیر مفاد اور ترجیحات کے ہوں ان سے بڑا اثاثہ کوئی نہیں ہوتا
آج اس نفسہ نفسی کے دور میں بغیر ترجیحات اور اغراض کے بےلوس اور پرخلوس تعلق نصیب سے ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں ان کو سمجھنے اور ان کی قدر بہت کم لوگ کرتے ہیں
حقیقی خوشی کا حصول بھی امومن اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کے دل میں جو بھی آے کسی سے کھل کرکہ سکیں، آپ کے مزاج میں پیدا ہونے والے تغیورات کو باقاعدہ سمجھا جائے. مگر افسوس امومن آج کل چکنی چپڑی باتیں کر کے دل میں جگہ بنانا اور اس کے بعد جڑیں کاٹنا عام سی بات ہوگئی ہے، کھوکھلی ہنسی اور ریشم کے دھاگوں سے بھی کچے عہدوپیمان کر کے دل دکھانا گو روزمرا کا معمول بن گیا ہے، حوصلہ شکنی، بات بے بات تمسخر اڑانا، منفی الکاب کا نشانہ بنانا، غیبت کرنا، اخلاکیات کا لازمی جز بن چکے ہیں
خودغرضی کی انتہا اس قدر ہے کے ہر شخص اپنی خوشی اپنی خواہشات اپنی خوشی کی تسکین کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے، احساس، عزت، احترم، محبت، خلوس، وفا، گویا کتابی باتیں رہ گئیں ہیں
المیہ یہ نہیں کہ ایسا ہو رہا ہے المیہ یہ ہے کہ مسلسل ہو رہا ہے کے بجے ان غیراخلاقی امراض کا خاتمہ کیا جائے انہیں سوشل سٹینڈرڈز کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے، کہتے ہیں دنیا میں جینا ہے تو دنیادار ہونا پڑتا ہے سوال یہ ہے کے جب کوئی آپ کے اخلاص کی دھجیاں دنیاداری کا لبادہ اوڑھ کر اتارا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ؟
جب کوئی اچھی بات کو بھی منفی رنگ دیتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے، کیسا لگتا ہے جب اپنے عزائم پورا نہ ہونے پے دل دکھاتا ہے ؟
پھر یہ حساس مزاج کا کہ کر اسی شخص کا منہ بند کر دیا جاتا ہے، آخر یہ منافکت کب تک ؟ کب تک ہم ایک دوسرے سے محض اس لئے ملتے رہیں گے یہ شخص مشکل میں ہمارے کام آے گا کل گرکوئی کام پڑھ گیا تو ؟ چلیں منہ بند کر لیا جائے
اس سب میں تو خلوس محبت اخلاق تو کہیں بھی نظر نہیں آتا، پھر کچھ نفرتوں کے ستون یہ کہ کر بلند کر دیے جاتے ہیں کہ مشکل وقت میں اگر یہ میرے کام نہیں آیا تو میں کیا کرونگا ؟
اگر قطع رحمی کے در پروردگار کھول دے تو شاید ہم جن رحمتوں اور عنایتوں کا شکر ادا کرنا بھی بھول جاتے ہیں وہ بھی نہ ہوں کیونکہ ہمارا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جتنی خداےواحد کی عنایتیں ہیں، بات بات پہ ایک دوسرے کو تنکید کا نشانہ بنانا، صرف اور صرف اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی بات منوانے کے لئے درست بات کو بھی غلط ثابت کرنا بےبس کرنا احساس کمتری کی واضح نشانی ہے
مشور شاعر جون الیا نے کیا خوب کہا ہے


ہیں سب راستے پشیمانی کے راستے


میں چلتا جاؤں پر راستہ نا چاہوں



آئیے آج ایک عہد کریں کے دوسروں کو تنکید کا نشانہ بنانے کے بجائے ہم اپنی اصلاح کی کوشسش کریں گے اور خود تعصب، منفیت اور ترجیحات کو پسےپشت ڈال کر ایک دوسرے سے اخوت اور محبت سے رہیں گے، کسی کا سہارا اس لئے نہیں بنیں گے کے کل وہ ہمارے کام آے گا بلکے اس لئے کہ ہمارا الله راضی ہوگا بیشک وہ پاک ذات اپنے بندے کو ٧٠ ماؤں سے بھی پیار کرتی ہے


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160