ذمہ دار کون؟

Posted on at


ویسے تو پاکستان میں آئے روز چھوٹے موٹے جارحیت اور پولیس گردی کے واقعات سرخیوں اور خبروں کا حصہ بنتے ہی رہتے ہیں اور ہم سب ان کے بہت زیادہ عادی ہو چکے ہیں لہذا عام طور پر ان پر غور ہی نہیں کرتے مگر کبھی کبھار ایسا وحشت ناک واقعہ بھی پیش آ جاتا ہےجو ہمیں روح کی گہرائیوں تک تڑپا کر رکھ دیتا ہے اور چند دن تک تو میڈیا اور اخباروں پر اس کا خوب چرچا رہتا ہے مگر پھر آھستہ آہستہ وقت کی گرد اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور ہم دوبارہ کسی نئے وقوعے  کا انتظار کرنے لگتے ہیں جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں فرزانہ نامی لڑکی کے قتل کا اندھوہناک واقعہ پیش آیا جس کو غیرت کے نام پر اس کے اپنے ہی خاندان والوں نے موت کی نیند سلا دیا . اس سے کچھ عرصہ پہلے کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کا قتل بھی کافی عرصہ تک میڈیا کی زینت بنا رہا . اخباروں میں ان سب واقعات کو خاصا اچھالا گیا مگر ان سب کا فیصلہ کیا ہوا یا ذمہ داروں کو کوئی سزا بھی ملی اس بارے میں عوام مکمل طور پر اندھیرے میں ہیں اور شاید ہمیشہ ہی رہے گی مگر ابھی ابھی کل کی ہی تاریخ میں لاہور میں پولیس گردی کا جو انتہائی سنگین اور الم ناک واقعہ پیش آیا اس کو شاید ملکی تاریخ کا بد ترین واقعہ کہا جاۓ تو بے جا نہیں ہوگا جہاں پولیس نے بد ترین تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوۓ پاکستانی عوامی تحریک کے کارکنان پر حملہ کیا اور٧  افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے 



 اس وقوعے میں جو ٧ افراد لقمہ اجل بنے ان میں ٢ خواتین بھی شامل ہیں اور یہ پولیس کی غنڈہ گردی اور بربریت کی کھلی مثال ہے کہ انہوں نے مرد و زن میں کوئی تمیز نا کرتے ہوۓ بے دریغ تشدد کا مظاہرہ کیا. اس سارے ہنگامے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب پولیس کی ٹیم ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع علامہ طاہر القادری کے گھر کے سامنے نصب کی گئی رکاوٹوں کو ہٹانے پہنچی اور وہاں موجود کارکنوں کے احتجاج کے بعد ان پر تشدد اور آنسو گیس کے شیل برسانے شروع کر دئے. موقع پر موجود ٥ احتجاج کرنے والے افراد کو گرفتار بھی کیا گیا مگر اس واقعے کا سب سے درد ناک پہلو یہ رہا کہ پولیس نے بنا کسی مرد و زن کی تخصیص کئے کارکنوں پر نا صرف تشدد کیا بلکہ ان پر فائرنگ بھی کی جس سے ٢ خواتین سمیت سات افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اس کے ساتھ ساتھ ٨٠ کے قریب افراد زخمی بھی ہوۓ جن کو ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا . اس واقعے کے بعد پورا شہر لاہور سوگ کی لپیٹ میں آگیا اور جگہ جگہ لوگوں نے اس غنڈہ گردی کے خلاف مظاہرہ کیا اس کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام بڑے بس اڈے بھی بند کر دئے گئے جس سے دوسرے شہروں سے آنے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا 



اس تمام واقعے کے دوران نہ صرف املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا بلکہ پولیس نے بھی جی بھر کر من مانی کی . پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا الله نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ کہ گھر کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنا خلاف قانون ہیں اور قادری صاحب کے گھر کے آگے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے مگر رانا صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ کہ نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج اور سیدھی فائرنگ کون سے قانون کے زمرے میں آتی ہے . اس کھلی دہشت گردی کی ذمہ دار سرا سر پنجاب کی حکومت ہے کیوں کے اپنے طور پر پولیس کبھی ایسا جارحانہ قدم نہیں اٹھا سکتی جب تک اس کو حکومتی آرڈرز نہ ہوں . اس معاملے میں جب بعد میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا اس سلسلے میں وہ بےقصور ہیں . اس معاملے کو لے کر  کل رات سے ٹی وی پر پروگراموں اور ٹاک شوز کا سلسلہ جاری ہے جس میں حسب سابق ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی ہے . عمران خان نے تو شہباز شریف سے استعفا دینے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے . مگر سوال یہ ہے کہ ان معصوم لوگوں کو کہ پولیس کی بربریت کا نشانہ بن کر اپنی جان ہار گئے اور جن لوگوں کو اپنی قیمتی جائداد سے محروم ہونا پڑا ان سب کا ذمہ دار آخر ہے کون ؟ کیا اس طرح کے واقعات ہمیشہ پاکستان کی تقدیر کا حصہ بنے رہیں گے ؟ شائد اس سب کا جواب ہاں میں ہی ہے


 


*****************************************************************************************


Click Here to Read More of My Blogs


Written By.


Hammad Ch. 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160