کون کہتا ہے کہ پولیس والے عوام کی خدمت نہیں کرتے ؟

Posted on at


پولیس کا محکمہ پاکستان میں بہت بدنام ہو گیا ہے ۔ ہر کوئی کسی کو یہی شکایات ہوتی ہے کہ یہ عوام کی خدمت نہیں کرتے ۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے چچا بھی پولیس میں ہیں ۔ جب سے وہ پولیس میں بھرتی ہوۓ ہیں تو لوگ انکے ساتھ ساتھ میری بھی بہت عزت کرتے ہیں ۔ پہلے جب میں کسی دکان پر جا کر گولڈ لیف کا ایک سگریٹ ادھار مانگتا تھا تو وہ غصہ ہو کر انکار کر دیتے تھے ۔ لیکن اب بات بلکل الٹ ہے ۔ اب اگر ان کی شاپ پر جاؤ تو وہی لوگ چپ کر کے گولڈ لیف کی ڈبی دے دیتے ہیں اور پیسے بھی نہیں لیتے ہیں ۔ پہلے مجھے کوئی بھی اپنی دکان کے سامنے کھڑے نہیں ہونے دیتا تھے لیکن اب جب انکی دکان کے کے سامنے جاؤ تو بینچ پر کپڑا مار کر دیتے ہیں ۔ پھر بٹھاتے ہیں ساتھ ہی مزے کی بات یہ ہے کہ بوتل بھی پلاتے ہیں ۔



لوگ کہتے ہیں کہ پولیس والوں کی کوئی نہیں مانتا لیکن میں اس بات سے بلکل اتفاق نہیں کرتا ۔ کیونکہ ابھی کل ہی کی بات ہے جب میں رشید بابا کی ریڑھی پر آم کھائے گیا  ۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ کتنے پیسے بنے ہیں تو انہوں نے کہا کہ سرکار کیسی بات کرتے ہیں بھلا ہم کون ہیں کہ آپ سے پیسے لیں ۔ ایک اور بات آپ کو بتاتا ہوں میں خان بیکری پر گیا تو انہوں نے مجھ سے سموسوں کے پیسے بھی نہیں لئے ۔ پہلے تو ان بیکری والوں کی اکڑ ہی ختم نہیں ہوتی تھی ۔ پہلے یہ سموسوں کے ساتھ چٹنی بھی نہیں دیتے تھے ۔ لوگ جب ان سے چٹنی کا کہتے تو الٹا لڑنا شروع کر دیتے تھے اور کہتے تھے جا بابا اپنا کام کر ۔ ایک سموسے کے ساتھ کون چٹنی دیتا ہے ۔ لیکن مجھے تو سموسے بھی مفت میں مل گئے اور چٹنی بھی ۔ وہ اس لئے کہ میرے چچا پولیس میں ہیں ۔



ادھر آپ نے سنا تو ہو گا ہر روز کسی نہ کسی کی کوئی چیز چوری ہو جاتی ہے ۔ ایک دفعہ میری سائیکل چوری ہو گئی تو میں نے اس بات کا اپنے چچا کو بتایا ۔ اب دیکھیں اگلے دن ایک عجیب منظر میرے سامنے آتا ہے ۔ ایک چور میری سائیکل خود ہی واپس کرنے آ جاتا ہے اور میرے چچا کو کہتا ہے کہ سرکار مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ اپنے بندے کی چیز ہے ۔ میرے چچا بہت قابل آدمی ہیں انہوں نے چرسیوں کا جینا محال کر کے رکھا ہوا ہے ۔ میرے ایک دوست کی ہوٹل سے چچا نے چرس برآمد کر کے اس کو جیل میں بند کر دیا ۔ اب میرا دوست مجھے فون کر کے بلاتا ہے تو میں اس کا معاملہ ٢٠ ہزار میں رفعہ دفعہ کرا دیتا ہوں ۔ اگر ادھر میرے چچا ہوتے تو وہ ٥٠ ہزار سے کم کبھی نہ مانتے اور ساتھ میں چھترول الگ سے کرتے ۔



ایک دفعہ میرے چچا نے مجھے کہا ایف اے پاس کر لو میں تمہیں بھی کہیں نہ کہیں پولیس میں لگوا دوں گا ۔ اب میں نکمہ کہاں سے پاس کرتا پھر میں نے اپنے چچا سے کہا کہ مجھ سے نہیں پاس ہوتی ۔ وہ الٹا مجھ پر غصہ ہوۓ میں نے ان کو سچ سچ بتایا کہ کہ پرنسپل مجھے نقل نہیں کرنے دیتے ۔ میرے چچا اب فل غصے میں پرنسپل سے ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کو کسی نے کچھ نہیں کہنا ۔ اب پیپر شروع ہوۓ تو پیپر میں پرنسپل صاحب مجھے چاۓ الگ سے پلواتے اور نقل الگ سے کرواتے ۔ دیکھو مزے تو ہیں نے پولیس والوں کے اور ساتھ ان کے دوستوں کے بھی ۔ پہلے جب میں ملکو چچا کے گنے کے کھیت سے گنے چوستا تو وہ اپنا کتا میرے پیچھے لگا دیتے تھے ۔ لیکن اب جب میں گنے کے کھیت سے گزرتا ہوں تو میرے لئے وہ چارپائی بھی خالی کرتے ہیں اور گنا بھی لے آتے ہیں کہ یہ لیں جی چوسیں ۔



ابھی تو اور بھی بہت کچھ بتانے کو ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اتنا ہی بہت ہے ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولیس والے عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔



About the author

RehanDhareja

i am the student of bsc engineering

Subscribe 0
160