روزے میں کیفیات نفس

Posted on at


روزے میں کیفیات نفس
جو شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے، غور کیجیے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات ابھرتی ہیں
١ - اس کو خداوند عالم کی ہنستی کا، اس کے عالم الغیب ہونے کا، اس کے قادر مطلق ہونے کا، اور اس کے سامنے اپنے محکوم اور جوابدہ ہونے کا کامل یقین اور اس پوری مدت میں، جب کہ وہ روزے سے رہا ہے، اس کے یقین میں ذرا تزلزل نہیں آیا
٢ - اس کو آخرت پر، اس کے حساب کتاب پر اور اس کی جزا اور سزا پر پورا یقین ہے اور یہ یقین بھی وہ کم از کم ١٣،١٤ گھنٹوں میں برابر غیر متزلزل رہا ہے، جب کہ وہ اپنے روزے کی شرط پر قائم رہا
٣ - اس کے اندر خود اپنے فرض کا احساس ہے- وہ آپ اپنی ذمہ واری کو سمجھتا ہے، وہ اپنی نیت خود محتسب ہے، اپنے دل کے حال پر خود نگرانی کرتا ہے- خارج میں قانون شکنی یا گناہ کا صدور ہونے سے پہلے جب نفس کی اندرونی تہوں میں اس کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اسی وقت وہ اپنی قوت ارادی سے اس کا استیصال کر دیتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پابندی قانون کے لیے خارج میں کسی دباؤ کا وہ محتاج نہیں ہے
٤ - مادیت اور اخلاق و روحانیت کے درمیان انتخاب کا جب اسے موقع دیا گیا تو اس نے اخلاق و روحانیت کا انتخاب کیا- دنیا اور آخرت کے درمیان جب ترجیح کا سوال آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی- اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ وہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان و تکلیف کو اس نے گوارہ کیا، اور آخرت کے نفع کی خاطر دنیوی مضرت قبول کر لیا
٥ - وہ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ وہ اپنی سہولت دیکھ کر اچھے موسم، مناسب وقت اور فرصت کے زمانے میں روزہ رکھے، بلکہ جو وقت قانون میں مقرر کر دیا گیا ہے اسی وقت روزہ رکھنے پر وہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے، خوا موسم کیسا ہی سخت ہو، حالات کسے ہی ناسازگار ہوں اور اس کی ذاتی مصلحتوں کے لحاظ سے اس وقت روزہ رکھنا کتنا ہی نقصان دہ ہو
٦ - اس میں صبر، استقامت، تحمل، یکسوئی، توکل اور دینوی ترغیبات و تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اس حد تک موجود ہے کہ رضائے الہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کیا گیا ہے- اس کام کے دوران میں وہ رضاکارانہ اپنی خواہشات نفس کو روکتا ہے- سخت گرمی کی حالت میں پیاس سے حلق چٹخا جا رہا ہے، برفاب سامنے ہے آسانی سے پی سکتا ہے مگر نہیں پیتا- بھوک کے مارے جان پر بن رہی ہے، کھانا حاضر ہے چاہے تو کھا سکتا ہے، مگر نہیں کھاتا- ممکن الحصول فائدوں سے یہ صرف نظر، اور ممکن الاختراز نقصانات کی یہ پذیرائی اور خود اپنے منتخب کیے ہوے طریق حق پر ثابت قدمی کسی ایسے نفع کی امید پر نہیں ہے جو اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہونے والا ہے بلکہ ایسے مقصد کے لیے ہے جس کے مطلق پہلے ہی نوٹس ہے کہ قیامت سے پہلے اس کے حاصل ہونے کی امید نہ رکھو

یہ کیفیات ہیں جو پہلے روزے کا ارادہ کرتے ہی انسان کے نفس میں ابھرتی شروع ہوتی ہیں- جب وہ روزہ رکھتا ہے تو یہ بالفعل ایک طاقت بن جاتی ہیں- جب تیس دن تک وہ مسلسل اسی فعل کی تکرار کرتا ہے تو یہ طاقت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے اور بالغ ہونے کے بعد سے لے کر مرتے دم تک تمام عمر ایسے ہی تیس، تیس روزے ہر سال رکھنے سے وہ آدمی کی جبلت میں پیوست ہو کر رہ جاتی ہے- یہ سب کچھ اس لیے نہیں ہے کہ یہ صفات صرف روزے رکھنے میں اور صرف رمضان کے مہینے میں ہی کام آئیں، بلکہ اس لیے ہے کہ انہی اجزا سے انسان سیرت کا خمیر بنے- وہ فجور سے یکسر خالی ہو اور اس کی ساری زندگی تقویٰ کے راستے پڑ جائے- کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے روزے سے بہتر کوئی طریق تربیت ممکن ہے؟ کیا اس کے بجاۓ اسلامی طرز کی سیرت بنانے کے لیے کوئی دوسرا کورس تجویز کیا جا سکتا ہے؟



About the author

160