تزکیہ نفس اور ماہ رمضان

Posted on at


تزکیہ نفس اور ماہ رمضان


تزکیہ نفس کا مفہوم ہے جسم و جان کو گناہوں سے پاک کرنا ہے اور زندگی کے اُوپر ایسی اصلاح نافذ کرنا جو مرتکب گناہ سے باز رکھے  یوں تو ایک سچا مسلمان اپنی عام زندگی میں اللہ کے حکامات اور محمدﷺ کے اسوء حسنہ کو اپنی  زندگی کا شعار بناتا ہے  لیکن صیام رمضان میں  قوت قلب کی ایمانی حرارت کی لبریزی کے لئے خصوصی تیاری کرتا ہے کیونکہ ماہ رمضان سید الشہور یعنی تمام مہنوں کا سردار جو برکات ، ثمرات، رحمتوں ، نعمتوں کا مہنہ ہے۔ قرآن مجید  کے 23 سالہ  نزول اور اختیام  اسی ماہ برکت کا امتیاز ہے۔   یہ مہنہ اللہ کا ہے اور روزہ اللہ کا ہے۔  روزہ دار اور اللہ کا آپس میں براہ راست  تعلق ہے۔



آیات کریمہ اوراحادیث مبارکہ روزے کی فضلیتوں کے بیانات و احکامات سے بھری پڑی ہیں۔ ارکان اسلام کا چوتھا اہم رکن روزہ ہے جس میں  ماہ مبارکہ میں تیس دن اور ہر دن کے 24 گھنٹے اور ہر گھنٹے کے 60 منٹ ہر منٹ کے 60 سیکنڈ ، ہر لمحہ ، ہر گھڑی اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے برکات کی بارش کی جاتی ہے ہر نیکی کا اجر کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔  اگر کوئی مسلمان حقیقی معنوں میں اس ماہ کی فضیلتوں کو سمیٹ لے اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے نوملود بچے کی ہو،  گناہوں سے پاک صاف اور پاکیزہ۔



روزہ ایک ایسی فرضی عبادت ہے جس میں ایک مقرہ وقت کے لئے حلال اشیاء خوردونوش کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے اپنے آپ کو صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا تو رکھا جاتا ہے لیکن اپنے اوپر دیگر خواہشات نفس پر قابو روحانیت و ایمانی قلبی قوت کی افزائش و نمو ہے۔  یعنی اپنی سماعتوں کو بری باتوں سے دور رکھنا، اپنی زبان کو بےہودہ اور بے مقصد باتوں سے روک کر  ذکر الہیٰ و عبادات میں مشغول رہنا اپنی نظروں کو ایسی چیزوں سے بچانا جس سے ایمان میں لغزش کا اندیشہ ہو اپنے ہاتھ پاؤں کو مخلوق خدا کو زر و نقصان پہنچانے سے روکنا۔ اپنی حثیت کے مطابق غریب و محتاج کی مدد کرنا، مسافر روزہ دار کے لئے افطارروزہ کا اہتمام کرنا۔  یہ سارے بنیادی عوامل فرائض منصبی کے علاوہ بھی تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہیں۔



اللہ کو ظاہری و باطنی پاکیزگی پسند ہے اور یہ تزکیہ نفس سے ممکن ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے اور یہ اصول ظاہری پاکیزگی کے علاوہ ہمارے قلب پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ روح کو پاکیزہ رکھنا گویا ایمان کو تقویت اور صحت مند بنانا ہے۔  دنیا میں جتنے بھی انبیاء اکرام معبوث ہوئے بنیادی توجہ تزکیہ نفس پر تھی ، گناہوں سے بچنا۔


ماہ رمضان کے بعد بھی انسان کے جسمانی و روحانی خدوخال اور روزمرہ کی زندگی پر روزے کے اثرات رہتے ہیں اور انسان اپنی زندگی کو قوائد و ضوابط میں رکھتے ہوئے اللہ کے حکامات پر عمل پیرا کو اپنی زندگی کا شعار بناتا ہے۔



ایک مسلمان اگر ماہ رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے اس ماہ کے ہر لمحے کو قیمتی بنائے اور باطن و ظاہر کی پاگیزگی کو اپنی زندگی کا اصول بنا لے تو دنیاوی زندگی کے ساتھ اخروی زندگی میں کامیابی بھی یقینی ہے۔


سورہ شمس کی ابتدائی کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے


یقینا فلاح پا گیا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہو گا جس نے اسے آلودہ کیا۔



160