حقوق العباد صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے(حصہ اول

Posted on at


کئی جگہ یوں ہوتا ہے کہ باپ کے انتقال کے بعد بڑے بھائی مل کر باپ کی ساری ملکیت جائیداد اموال پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اور بہنوں کو ان کا شرعی حق نہیں دیتے یہ سراسر ظلم ہے۔ ­اور جو حق اللہ تعالی نے لڑکیوں کا مقرر کر دیا ہے اس کو خود کھا جانا حرام اور ناجائز ہے۔


 


ان لڑکیوں کا خود حق نہ مانگنا دلیل اس بات کی نہیں کہ انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے اور مالیات میں تو بالخصوص رواجی خاموشی معتبر نہیں۔ نیز جھوٹی معافی کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ خصوصا جبکہ نابالغ بہن بھائی بھی وارثوں میں ہوں تو ان کی تو معافی یا مال چھوڑنے پر رضامندی شرعا ہرگز معتبر ہی نہیں۔



یا اس طرح بھائی کی وفات پر اس کی بیوہ اور اس کی اولاد کو حق نہ دینا اور خود ہڑپ کرنا سراسر ظلم ہے۔ اور حرام سے اپنے پیٹ کو بھرنا ہے۔ ایسے لوگ گویا اپنے پیٹوں میں جہنم کی جلتی ہوئی آگ کے انگارے بھر رہے ہیں۔ لہزا بہنوں کا، بھائیوں کا، یتیموں کا جو مال کھایا ہو اب جب اللہ نے توبہ کی توفیق دی تو فورا ادا کرنا شروع کر دیں۔


اور فورا سارا ادا نہ کر سکیں تو آہستہ آہستہ دیتے رہیں۔ اور اپنے وصیت نامے میں لکھ جائیں کہ اگر میں ادا نہ کر سکا تو میرے باقی مال میں سے یا میرے رشتہ دار مجھ پر احسان کرتے ہوے اتنا مال فلاں فلاں کو لوٹا دیں جو میں نے ناجائز طور پر غلطی سے کھا لیا تھا۔ خوب سمجھ لیجئے نفلی حج عمرہ کرنے سے مسجد اور مدرسہ میں لگانے سے یتیم خانہ میں دینے سے ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ جن کا مال لیا ہوا ہے ان کو پہلے ادا کریں۔


تجارت کی لائن میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ مال لے لیتے ہیں۔ اور نقصان ہو گیا تو سمجتے ہیں اب ان کو واپس لوٹانا ضروری نہیں حالانکہ وہ بھی لوٹانا ضروری ہے۔ حالانکہ اس کو لوٹانا بھی ضروری ہے ۔ جب حالات اچھے ہوجائیں تو اس کوفورا لوٹا دیں یا وہ لوگ اپنے حصے کا مال خوشی سے معاف کردیں ۔ آپ کی طرف سے کسی ڈراوے یا زبردستی کے بغیر تو اور بات ہے ۔



160