حضورﷺ کا سفر ہجرت

Posted on at



 


 


ہجرت سے قبل آنحضرتﷺ کو خواب میں دارالہجرت کا نظارہ کرایا گیا۔ گویا اک باغ پر بہار نگاہوں کے سامنے پیدا اور ہویدا ہے۔ یہ اشارہ مدینہ کے دینی گلزار اور روحانی بہار کی طرف تھا۔ دنیا میں اس وقت تک یہی ایک بستی تھی جو کچھ کچھ نیکی کی فضا میں سانس لیتی تھی۔ سعید روحیں اب بھی فراغت حج کے بعد اس پاکیزہ ہواؤں سے فیض یاب ہونی کے لیے جاتی تھیں۔ اسلام لانے سے پہلے مدینہ کے لوگوں کے اندر اخز خیر کی قوتیں کلی کی طرح بند تھیں۔ دین مبین کی قبولیت کے بعد گویا وہاں فصل گل آگئی۔ نیکیاں چمنستان مدینہ سے اٹھ کر نگہت جنت کی طرح کل عالم میں پھیل گئیں۔



قریش نے مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انہیں سخت اذیتیں دی مگر مسلمانوں کے لے پیغمبرﷺ کے حکم سے سرتابی خلد کی پاکیزہ ہواؤں سے دوری کے مترادف تھی۔ بعض کے مال واملاک ضبط ہوگئےمگر ایمان کی دولت اور حق کی آواز ضبط نہ ہو سکی۔مسلمان جو اس داروگیر اور ضبطی وقربی سے بے پروا تھے مدینہ پہنچے۔ اب آنحضرتﷺ تھے یا حضرت ابوبکررضہ اور حضرت علی رضہ ۔ حضورﷺ کے حکم کے منتظر اور یہ دونوں نبیﷺ کے حکم کے پابند تھے۔



ندوہ میں قریش کے جملہ سردار یعنی نرم گرم دونوں فریق جمع تھے۔ نرم مزاج مخالفوں نے قید اور جلا وطنی کا مشورہ دیا۔ گرم طبعیت دشمن سر دھڑ کی بازی سے کم کسی چیز کو پسند نہ کرتے تھے۔ سب نے بہت سرمارا مگرخدا پرسی کے جرم کی کوئی موزوں سزا ذہن میں نہ ائی۔ بڑی دماغ سوزی کے بعد ابوجہل کے کان میں شیطان نے یہ تجویز پھونکی کہ ہر قبیلے سے ایک ایک شخص منتخب کر کے سب یک بار محمدﷺ ٹوٹ پڑو اور تکا بوٹی کر دو۔ اس کے اقربا جب سرداروں کی تلواروں کو خون سے رنگین دیکھیں گے تو دم نہ ماریں گے۔اس تجویز پر جہنم کے سب چھوٹے بڑے شیطانوں نے واہ واہ کی۔ فیصلہ ہوا کہ سر شام ہی کفر کی تاریکی ایمان کی تنویر کو گھیر لے۔ ہاں عربی شرافت کے پیش نظر صرف یہ احتیاط کی جائے کہ حملہ آور اندر داخل نہ ہوں بلکہ آستانہ مبارک کے باہر گھات میں لگے رہیں۔جونہی حضورﷺ صبح گھر سے نکلیں سب تلواریں سونت کر جا پڑیں۔



     اس چنڈال چوکڑی کے منصوبوں سے پہلے پروردگار عالم کی طرف سے سرور کائناتﷺ کو ہجرت کا حکم مل چکا تھا، چنانچہ ہجرت سے دو رور پہلے یہ حکم پا کر نبیوں کا سردارﷺ لوگوں کی نگاہوں سے بچتا دوپہر کے وقت صدیق اکبر رضہ کے گھر پہنچا۔ اسلام کے دستور کے مطابق دروازے پر دستک دے کر اندر آنے کی اجازت مانگی۔ حضرت ابوبکر رضہ نے دروازہ کھولا۔ آنحضرتﷺ صدیق اکبرکے گھر میں چپکے سے داخل ہو گئے اور مشورے کے لیے تخلیہ چاہا۔ اس وقت حضرت عائشہ ہی گھر میں تھیں جن کی شادی ہو چکی تھی۔ حضرت ابو بکر نے کہا کہ اس گھر میں آپﷺ کی اہلیہ کے سوا کوئی نہیں۔ حضورﷺ نے بیٹھتے ہی نوید ہجرت سنائی۔ معلوم ہوتا ہےصدیق اکبرایک مدت سے آنحضرت کی ہمراہی کے شرف کی آرزو کو دل میں پرورش کر رہے تھے۔ ان کی مضطربانہ دعائیں اسی دن کی سعادت کے لیے وقف تھیں۔ جونہی ہجرت کا حکم سنا، بے تابانہ پوچھا: "مہرے ماں باپ آپﷺ پر فدا، کیا ہمراہی کا شرف مجھ کو بھی بخشا جائے گا؟" آنحضرت نے فرمایا "ہاں" حضرت ابوبکر صدیق کا نخل آرزو بار آور ہوا اور دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔ پیغمبرﷺ کی ہمراہی مومنین کی معراج ہے، اس لیے اس شرف سعادت پر امیرالمومنین فرط انبساط سے رو دیے۔


                                                       جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                                            


 



About the author

Noor-e-Harram

i am nor-e-harram from Pakistan. doing BBA from virtual University of Pakistan. Filmannex is good platform for me to work at home........

Subscribe 0
160